سابق ایس ایس پی نے کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں دائر درخواست میں عدالت سے حاضری سے استثنیٰ کی استدعا کی تھی۔
رائو انوار نے درخواست میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ ان کی جان کو خطرات لاحق ہیں۔
یاد رہے کہ سابق ایس ایس پی رائو انوار اور ان کے ماتحت 13 زیرحراست اور سات مفرور ساتھیوں پر 27 سالہ ماڈل نقیب اللہ کے علاوہ تین دیگر افراد کے قتل کا الزام عائد ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ’آخری بار بات ہوئی تو نقیب نے بیٹے کی ویڈیو مانگی تھی جس نے پہلی مرتبہ بغیر سہارے کے چلنا سیکھا تھا‘
کراچی کے شاہ لطیف ٹائون میں 13 جنوری 2018 کو ہونے والے ایک جعلی پولیس مقابلے میں تین افراد کو داعش اور لشکرجھنگوی سے مبینہ تعلق پر دہشت گرد قرار دے کر قتل کر دیا گیا تھا۔
انسداد دہشت گردی عدالت نے رائو انوار کی درخواست پر کیس کے دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد گزشتہ روز فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت میں دائر درخواست میں رائو انوار کے وکیل عامر منسوب قریشی نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے موکل نے بطور پولیس افسر ملازمت کے دوران چونکہ دہشت گردوں کے خلاف کریک ڈائون اور کارروائیوں کی ہیں جس کے باعث وہ دہشت گردوں کے ہدف پر ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ نے بھی درخواست گزار کو فول پروف سکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے چنانچہ عدالت سے درخواست ہے کہ موجودہ مقدمے میں جب تک ان کی پیشی کی ضرورت نہ ہو، انہیں عدالت میں حاضر ہونے سے استثنیٰ دیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: دھرنا نقیب اللہ کا مگردرد ہرکسی کے الگ الگ
شکایت گزار کے وکیل صلاح الدین پنہور نے اس درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ رائو انوار اب پولیس افسر کی حیثیت سے خدمات انجام نہیں دے رہے جس کے باعث وہ اپنی جان کو لاحق خطرات کا دعویٰ نہیں کر سکتے اور نہ ہی انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت ان کی درخواست قابل عمل ہے چنانچہ اسے خارج کیا جائے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ 25 مارچ کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے علاوہ دیگر 17 ملزموں پر فرد جرم عائد کر دی تھی۔