یونس حبیب نے 1963 میں اپنے کیرئیر کا آغاز حبیب بینک لمیٹڈ میں کلرک کی حیثیت سے کیا تھا اور 1991 میں بینک کے صوبائی سربراہ کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔
1991 میں انہیں، سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ جام صادق علی کی مدد سے مہران بینک کے قیام کی منظوری دی گئی تھی، جس کے بعد انہوں نے بینک کے چیف آپریٹنگ آفیسر کا عہدہ سنبھالا تھا۔
1996 میں تحریک استقلال کے سربراہ اصغر خان نے ایک پٹیشن دائر کی تھی جس میں انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) پر الزام لگایا گیا تھا کہ ادارے نے 1990 کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سربراہ بینظیر بھٹو کے خلاف اسلامی جمہوری اتحاد کے قیام کے لیے متعدد سیاست دانوں کو مالی فوائد فراہم کیے تھے تاکہ پی پی پی کو اقتدار میں آنے سے روکا جاسکے۔
مذکورہ پٹیشن میں یونس حبیب پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے سیاست دونوں کو مالی فوائد دینے کے لیے کروڑوں روپے فراہم کیے، دیگر ملزمان میں سابق صدر غلام اسحٰق خان اور سابق آرمی چیف اسلم بیگ کا نام بھی شامل تھا۔
2012میں اصغر خان کیس کی سماعت کے دوران یونس حبیب نے سپریم کورٹ میں اعتراف کیاکہ انھوں نے آئی جے آئی کے رہنماؤں سابق وزیراعظم نوازشریف اور متعدد سیاسی قائدین میں کروڑوں روپے تقسیم کیے۔ یونس حبیب نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹینٹ جنرل(ر) اسد درانی اور سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ پر الزامات عائد کیے۔ بعد ازاں یونس حبیب نے ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم کو دیے گئے بیان میں اپنا موقف تبدیل کرلیا۔
https://www.youtube.com/watch?v=uZ8Bq4zTjuo&t=25s
اصغر خان کیس میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ پیسے بانٹنے کا یہ سارا عمل اُس وقت کے صدر غلام اسحاق خان اور دیگر قیادت کے بھی علم میں تھا۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی کے خلاف کارروائی کا بھی حکم دیا تھا۔ مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں ہی نظرثانی اپیل دائر کر رکھی تھی جسے عدالت مسترد کرچکی ہے۔ جبکہ سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کی اصغر خان کیس بند کرنے کی استدعا مسترد کردی ہے۔