سول سوساءٹی کی تنظیموں کے نمائندوں آئی اے رحمان، پیٹر جیکب ،مشِل چوہدری اور ایڈوکیٹ کلپنا دیوی نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ یہ اقدام 19جون 2014کو سپریم کورٹ کے پیرا 37کے آرڈر نمبر 4سے روگردانی ہے ;8367; ;837767; 1;47;2014) ) ۔ جس میں چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں ایک بینچ نے وفاقی حکومت کو یہ حکم دیا تھا کہ اقلیتوں کے حقوق کے لیے ایک قومی کونسل تشکیل دی جائے ۔ اقلیتوں کوآئین اور قانون کے تحت فراہم کردہ حقوق اور ضمانتوں پر عمل درآمدکی نگرانی کرنا مذکورہ کونسل کے منصب میں شامل ہو ۔ نیز کونسل کو یہ اختیار حاصل ہو کہ صوبائی اور وفاقی حکومت کے لئے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور تحفظ کی پالیسی سفارشات مرتب کرے ۔
اقلیتی حقوق برائے عوامی کمیشن کے چیئرمین پیٹر جیکب نے کہا کہ عدالت کے ان احکامات کی تعمیل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک قانون سازی کے ذریعے ایک با اختیار، خود مختار اور ادارہ قائم نہیں کیا جاتا اورجس کو انکوائری کرنے اور انسانی حقوق کی پامالیوں پر دادرسی کا اختیار حاصل نہ ہو ،لہذا ہ میں ایک علامتی یا فرضی کمیشن قابل قبول نہیں ۔
انہوں نے مذید کہا کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اداروں کے لئے وضع کئے گئے رہنما خطوط (پیرس ہدایات) کے مطابق کسی سیاسی عہدیدار کو کمیشن کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا ۔ ان کمیشنوں کو حکومت اور حزب اختلاف دونوں کی تایئد حاصل ہونی چاہیے ۔ جس کی مثال 2012ء کے قومی انسانی حقوق کمیشن ایکٹ نمبر 888673 کے قیام میں موجود ہے ۔ درحقیقت گزشتہ 30 سالوں میں کئی بار حکومتوں نے انتظامی اختیارات کے ذریعہ ایسے ایڈہاک اقلیتی کمیشن تشکیل دیئے تھے، جو اقلیتوں کے لیے انسانی حقوق کے تحفظ کے ضمن میں کو کار کردگی کا مظاہرہ نہ کر پائے ۔ حکومت کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اہلیت کی بنیاد پر تقرری، اختیارات اور وسائل دیئے بغیر کوئی ادارہ اپنے مقصد اور اہداف میں کامیاب نہیں ہوسکتا ۔ لہذا ہم اس فرضی ادارے کے قیام کو مسترد کرتے ہیں ۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ اس سے قبل انسانی حقوق کے لیے قومی کمیشن، خواتین کی حیثیت سے متعلق قومی کمیشن اور بچوں کے حقوق کے لیے کمیشن، سبھی باقاعدہ قانون سازی کے تحت قائم ہوچکے ہیں ۔ ہم وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ کے ممبران سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ملک کے مفاد میں اس فیصلے پر نظر ثانی کریں ۔ کیونکہ حقوق کے تحفظ کی خاطر نبنے والے کسی ادارہ کے لئے ایک مضبوط قانونی بنیاد ہونی چاہیے ۔ بصورت دیگر مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر پائے جانے وا لے ادارہ جاتی عدم مساوات اور امتیازی سلوک کے دیرینہ امور کا حل پیش نہیں کر پائے گا۔