اس لئے یہ بے نتیجہ رہا تھا تاہم اب سعودی شاہی خاندان کے قریب سمجھے جانے والے عربی جریدے مڈل ایسٹ آئی نے دعوی' کیا ہے کہ اس میٹنگ سے کچھ دیر قبل سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کے درمیان ایک ٹیلی فونک رابطہ ہوا تھا جس میں انتہا درجے کی بد مزگی پیدا ہوگئی تھی۔ جریدہ لکھتا ہے کہ پوتن اور محمد بن سلمان ایک دوسرے پر بری طرح چلائے تھے اور کال برے طریقے سے اختتام کو پہنچی تھی۔ اس کال کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ یہ سعودی شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے پوتن کو کی گئی آفیشل کال تھی۔
اس کال میں محمد بن سلمان نے پیوتن کو دھمکی دی کہ اگر تیل کی قیمتوں پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا گیا تو وہ تیل کی قیمتوں کی ایک جنگ چھیڑ دیں گے۔ انہوں نے دھمکی دی کہ سعودیہ تیل کی عالمی منڈی کو تیل کی سپلائی میں اضافہ کر کے اسے بھر دے گا۔ تاہم پوتن سعودی ولی عہد کی کسی دھمکی کو خاطر میں نہ لائے اور جواب میں وہ بھی شہزادہ سلمان پر خوب برسے اور برے طریقے سے کال ختم کردی۔
تاہم اس رپورٹ میں دلچسپ انکشاف یہ کیا گیا ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے روسی صدر کو کال کرنے سے پہلے انہوں نے امریکی صدر کے داماد اور وائٹ ہاوس میں انکے مشیر ڈیوڈ کشنز کو فون کیا تھا۔ ڈیوڈ کشنر عرب دنیا کے معاملات پر ڈونلڈ ٹرمپ کے کرتا دھرتا ہیں اور سعودی ولی عہد سے دوستی بھی رکھتے ہیں جس کی بنا پر وہ وائٹ ہاؤس میں شہزادے کے سب سے بڑے حامی اور دفاع کرنے والے سمجھے جاتے ہیں۔ رپورٹ میں دعوی' کیا گیا ہے کہ اس کال کو داماد ڈیوڈ کشنر کے ذریعیے ڈونلد ٹرمپ کی آشیرواد حاصل تھی۔
تاہم معاملہ کچھ رہا کہ ڈیوڈ کشنر نے محمد بن سلمان کو نہ تو پیوٹن کو کال کرنے کو کہا اور نہ ہی اسے روکا یعنی ایک خاموش تائید دے دی گئی۔ تیل کی قیمتیں اوپیک پلس کی میٹنگ میں کسی سمجھوتے پر پہنچنے میں ناکامی کے بعد گر گئیں۔ اسے پہلے تو ٹرمپ کی جانب سے امریکا کی خوشقسمتی قرار دیا گیا تاہم طاقتور امریکی آئل لابی کے طاقت کے ایوانوں میں احتجاج کی وجہ سے اس پر یو ٹرن لے لیا گیا اور سمجھوتہ کرانے کی کوششیں شروع ہوئیں تاہم جب تک وہ بیل منڈھیر چڑھی پلوں کے نیچے سے پانی گزر چکا تھا۔
ماہرین کے مطابق یہ معاشی سیاست کے لئے ابھی خام تجربہ رکھنے والے سعودی ولی عہد کی بے صبری سے لبریز ناقص چال تھی جس نے سعودیہ کو دو نقصان دیئے۔ ایک یہ کہ کرونا کی وبا کے دوران قیمتوں کی جنگ چھیڑنے کی وجہ سے تیل کی قیمتیں وہاں پہنچ گئیں جہاں سے انکی واپسی میں عرصہ لگ جائے گا اور اس عرصے میں سعودی عرب کثیر سرمائے سے محروم رہے گا جس کے اثرات اسکی داخلی خارجی معاشی اور سیاسی صورتحال پر پڑیں گے۔ دوسرا نقصان یہ کہ بڑی کوششوں کے بعد سعودی عرب اور روس کے درمیان جو اندرون خانہ تعلقات قائم ہوئے تھے ان پر کاری ضرب لگی ہے۔ اس صورتحال کے اثرات عالمی سیاست پر بھی مرتب ہوں گے۔