تاہم پاکستان کے لئے، جس کی ترقی اور خوشحالی کی تمام تر امیدوں کا مرکز چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور تھا، یوں لگتا ہے کہ مشکل دنوں سے نکل کر اچھے دنوں کے آنے کی امیدیں بھی چھن جانے کو ہیں۔ اس سال نئے چینی سال کی چھٹیوں کے لئے سی پیک پر کام کرنے والے ہزاروں چینی حکام ، مزدور اور ہنرمند افراد چین چلے گئے تھے۔ تاہم اس دوران کرونا کی وبا پھیل گئی۔ جس کے بعد ان میں سے کوئی بھی واپس نہیں آسکا اور منصوبے پر عملی طور پر کام نہیں شروع ہوسکا۔
ویسے تو 22 مارچ 2020 کو پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سی پیک سے متعلق سب اچھے کی خبر دی تھی تاہم حال ہی میں قومی اقتصادی کمیٹی میں پیش کی گئی ایک رپورٹ میں واضح کر دیا گیا ہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے آنے والے اس معاشی و انتظامی بحران سے سی پیک کے تمام منصوبے تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں۔ پاکستانی حکام کی جانب سے جمع کرائی گئی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سی پیک پر کام کرنے والی کمپنیاں سپلائی چین میں تسلسل برقرار نہیں رکھ سکتیں۔ دوسری جانب انکو سرمائے اور افرادی قوت کی قلت ، تاخیر کی وجہ سے منصوبوں کی بڑھتی ہوئی لاگت، بندشوں کی وجہ سے سپلائی چین اخراجات میں اضافہ سمیت دیگر مسائل کی وجہ سے اپنے ٹارگٹ پورے نہیں کر پائیں گی اور انہیں کام میں دقت ہوگی۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس وقت پیش رفت کے حامل سپیشل اکنامک زونز کا منصوبہ بھی اس سے متاثر ہوگا کیونکہ کمپنیوں کو فوری طور پر افرادی قوت کے حصول میں دشواری ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ اس منصوبے کا دوسرا مرحلہ 90 فیصد تک اپنی رفتار کھو دے گا۔
عالمی معاشی ماہرین کا کہنا ہے ہے کہ یہ وبا ویسے تو کسی کو بھی معاف نہیں کر رہی تاہم چین کے لئے کسی بھی ایسی نا گہانی آف کا سامنا کرنے کے لئے یہ بد ترین وقت تھا اور شاید اس صورتحال میں چین ایسی معاشی قوت ہوگی جو سب سے زیادہ نقصان اٹھائے گی۔
تاہم معاملے پر وزارت پلاننگ ڈیویلپمنٹ اینڈ ریفارم میں اعلی' سطحی ذرائع سے بات ہوئی تو انکا کہنا تھا کہ اس بارے میں چند مغالطے دور ہونے چاہیں۔ اول تو یہ کہ سی پیک صرف کرونا کی وجہ سے ہی خطرے کا شکار نہیں ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ موجود حکومت کے آنے کے بعد سے سی پیک کے منصوبوں کی تکمیل کی رفتار میں خاطر خواہ کمی آئی۔ صرف وہی منصوبے مکمل کئے جا سکے جو گزشتہ حکومت نے شروع کئے تھے اور انکے تمام دستاویزی قانونی اور بجٹ سے متعلق لوازمات مکمل تھے۔ اس حوالے سے چینی حکومت کی جانب سے متعلقہ وزرا کی تبدیلیوں کے بارے سفارشات کی باز گشت بھی سنی گئی۔ انہوں نے نیا دور کو بتایا کہ معاملہ At half burner تھا۔ جو اب کرونا کی وجہ سے ایک بار تو مکمل طور پر ٹھپ ہے۔
اس سوال پر کہ حکومت کی جانب سے تو مسلسل اس بات کا اعادہ کیا جا رہا ہے کہ جلد سی پیک کے منصوبے کھول دیئے جائیں گے؟ اس بارے ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ فوری ممکن نہیں ہے۔ جو کام جاری ہوگا بھی وہ وہی ہے جو پائپ لائن میں ہوگا اور اسے شروع کرنے کے لئے لوازمات دستیاب جس میں چینی ہنر مند افرادی قوت اہم ترین ہے، پورے ہوں گے۔ ورنہ اکا دکا جگہوں پر ادھورے کام کو دیکھایا تو سی پیک کے منصوبے پر کام کے طور پر ہی جائے گا تاہم وہ کسی بھی صورت کوئی واقعی پیشرفت نہیں ہوگا۔ ذرائع کا کہنا تھا منصوبے جلد شروع کرنے کا حکومتی عندیہ خاص وزن نہیں رکھتا یہ بہت جلد بھی یہ کرنا ہو تو تب بھی اس سال کے آخری سہماہی سے پہلے یہ نہیں شروع ہوگا۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ اب پاکستان کو چاہے منصوبوں پر جتنی مرضی جلدی ہو اسکا انحصار چینی حکومت پر ہوگا۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا سی پیک اب دیوانے کا خواب بن جائے گا؟ جس پر ذرائع کا کہنا تھا کہ ایسا کہنا درست نہیں ہوگا۔ یہ سانپ سیڑھی کے کھیل میں لگا ایک دھچکا ہے۔ سفر طویل اور کٹھن ہوگا تاہم اسکو چین نئی اہمیت اور منصوبہ بندی کے ساتھ دیکھے گا۔
یاد رہے کہ سی پیک کی بنیادی لاگت 46 ارب ڈالر تھی جسے بڑھا کر 62 ارب ڈالر کر دیا گیا تھا اور اس حجم میں اضافہ جاری تھا۔ اس منصوبے کو پاکستان اور خطے کے لئے گیم چینجر کہا جا رہا تھا اور یہ اپنے دوسرے فیز میں داخل ہو رہا تھا۔