پہلے اپنے آپ کو خوب کوسا کہ صحافی بھی بننا چاہتا ہے اور کچھ کرنا بھی نہیں چاہتا۔ کاش آج ایک یوٹیوب چینل ہوتا تو وزیر اعظم سے ملاقات کا شرف نصیب ہو جاتا۔ خیر، اپنی قسمت کا کیا رونا روئیں؟ وطن عزیز میں کب کیا ہو جائے، پاکستانی کرکٹ ٹیم کی طرح اندازہ لگانا مشکل ہے۔
مختصراً یہ کہ یہ بات تو سمجھ سے بالاتر ہے کہ سوشل میڈیا کے صحافی کیا بلا ہے۔ صحافی تو سارا دن معلومات اکٹھی کرتا ہے، اس کی بار بار تحقیق کرتا ہے کہ خبر درست ہو، لیکن یوٹیوب کے بعد کافی آسان ہو گیا ہے۔ کیمرا مین بھی خود، ایڈیٹنگ میں بھی فن اور تبصرہ بھی کیا خوب، مطلب اپنی خبر پر خود تبصرہ۔
کسی بھی کام کے کرنے میں وقت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کل وزیر اعظم نے پاکستان کی ’سب سے بڑی ٹیلی تھون‘ نشریات میں حصہ لیا جس میں تمام بڑے چینلز کے اینکر حضرات موجود تھے۔ اختتام کے موقع پر اعلان ہوا کہ حضرت مولانا طارق جمیل دعا کریں گے۔ پھر کیا حکومت وقتِ جو کہ پہلے روز سے اس بات پر قائم ہے کہ میڈیا جھوٹا ہے اور اس پر لگام ڈالنے کا وقت ہے، اس بیانیے کو تقویت مولانا کے سرکاری فتوے نے بخشی۔ لیکن ستم ظریفی دیکھیے کہ تمام اینکرز کو مولانا صاحب جھوٹا کہہ گئے اور وہ دعا کرتے رہ گئے۔
میڈیا کے حالات ویسے ہی ابتر ہیں۔ حکومت نے سوشل نیٹ ورکنگ والے صحافیوں کو اشتہارات دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ گویا سرکاری سچ جم کر بولا جائے گا۔ وٹس ایپ ہو یا یوٹیوب، ہر جگہ سرکار کا بول بالا ہو گا جو کہ معاشرے کے زوال کا آغاز ہوتا ہے۔ یہی رویہ تنگ نظر سوچ کو پروان چڑھاتا ہے۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے لیکن اقتدار کا نشہ کچھ بھی کروا سکتا ہے۔
یہ اب ایک نیا سلسلہ چل پڑا ہے۔ لیکن معذرت کے ساتھ رؤف کلاسرا اور طلعت حسین بھی تو آج کل سوشل میڈیا کے کنگ ہیں۔ وہ کیوں ملاقات میں نظر نہ آئے؟