پاکستان کے نصاب میں پڑھائی جانے والی ایک خاص سوچ سے آنے والی نسل کو جس طرح تعصب اور رجعتی سوچ میں دھکیلا جا رہا ہے وہ اس ملک کہ لئے اُسی طرح سے خطرہ ہے جیسے 1971 سے قبل یہاں مشرقی پاکستان کو لے کر تعصب پھیلایا جاتا تھا جس پر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالمجید ملک کی کتاب ’ہم بھی وہاں موجود تھے‘ اور صدیق سالک کی کتاب ’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘ ایک اہم تاریخی پس منظر اور حقائق کا خزانہ ہے۔ اس ملک میں بانیِ پاکستان محمد علی جناح کی بہن اور مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو تو غدار اور ملک توڑنے کی منصوبہ بندی کرنے والا قرار دیا گیا اور ان کے مد مقابل آنے والے غیر آئینی و غیر جمہوری آمر کو آج بھی نصاب میں مُحبِ وطن قرار دیا جاتا ہے جبکہ یہ وہی آمر تھے جن کے پروموشن قائد اعظم یہ کہہ کر رکوائی کہ یہ جناب قیام پاکستان سے قبل برٹش انڈین آرمی میں بطور کیپٹن اُن فوجیوں کی جاسوسی کر کے شکایات لگاتے تھے جو انگریزوں کے خلاف آزادی کے حامی تھے ۔
تحریک پاکستان کے رہنما سردار شوکت حیات کے مطابق لیاقت علی خان اور ان کے رفقا کو جب یہ علم ہوا کہ لارڈ ماونٹ بیٹن چھ ماہ کے لئے بھارت اور پاکستان کے مشترکہ گورنر جنرل بننا چاہتے ہیں تو ان کو خوف لاحق ہو گیا کہ اس صورت میں قائد اعظم پاکستان کے وزیر اعظم بن جائیں گے تو انہوں نے لارڈ ماونٹ بنٹن کے خلاف مہم شروع کر دی اورہزاروں کی تعداد میں ٹیلی گرام قائد اعظم کو بھجوائے جس سے قائد اعظم متاثر ہو گئے۔ قائد اعظم نے سردار شوکت سے ایک ملاقات میں ان ٹیلی گراموں کا تذکرہ بھی کیا۔اس واقع کا تذکرہ کتاب (فیکٹ از فیکٹ ) دی ان ٹولڈ سٹوری آف انڈیا اینڈ پاکستان کے صفحہ نمبر 135 میں کیا گیا ہے ۔
اس ملک کی بد قسمتی کہیئے، جہالت یا معصومیات پچھلے 70 سالوں سے زائد اس قوم سے ایک ہی طریقے کے جھول کئے جا رہے۔ نئی پیکنگ میں پرانا مال بار بار بیچا جا رہا مگر افسوس کہ اس عوام کو نا کل سمجھ آئی نا آج ۔ وقت اور حالات تو یہ بتاتے ہیں کہ آنے والے وقت میں بھی یہ نہیں سمجھ پائیں گے۔
انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ غلامی و جبر میں جس طرح سوچ سکتا ہے اتنا وسیع انداز میں آزادی میں اس کے لئے سوچنا ناممکن ہے یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ قومیں جو آج بھی غلام ہیں ان کے ہاں سے اکثر کسی نا کسی معاملے پر کوئی نا کوئی عام شحض ایسی ایسی بات کر دیتا ہے کہ وہ اس قوم کا وژن بن جاتا ہے مگر ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم جغرافیائی آزادی کے باوجود ذہنی غلامی کی ایسی زنجیروں میں جھکڑے ہوئے ہیں اور نسل در نسل دھنستے جا رہے کہ الحفیظ الامان۔
اس ملک میں کوئی ایسا طبقہ و سوچ نہیں جس کے نام پر اس عوام کو پاگل نا بنایا گیا ہو یا بنایا نا جا رہا ہو، مذہب ،لبرلزم ، فیمنزم ، جمہوری اقدار، روایات، آمرین ، خلافت ، صدارتی نظام سمیت کوئی ایسی سوچ یا نظام نہیں جس کہ ذریعے اس عوام کو بیوقوف نا بنایا گیا ہو ۔پہلے اس ملک میں ذوالفقار علی بھٹو کی شکل میں ایک لبرل اور آزاد خیال معاشرے کا خواب دکھا کر ملک کو اس ڈگڑ پر لیجایا گیا اور حقیقی جمہوریت کا راگ الاپا گیا بعد ازاں امریکہ کے ایجنڈے کو پورا کرنے کی خاطر اور امریکہ افغان جنگ میں اپنی جانوں کے ضیاع کے لئے اس ملک میں ضیا الحق کو ون مین شو کہ طور پر لے کر آیا گیا اور اس کے پیچھے اصل وجہ ہمیشہ سے یہی رہی ہے کہ پاکستان میں بنتی بگڑتی حکومتوں اور حالات کے پیچھے عالمی اسٹیبلشمنٹ اور مفادات ہمیشہ سے ہیں۔
در اصل ہماری غلامی 1947 سے قبل بھی تھی اور آج تک برقرار ہے۔عالمی سطح پر جب بھی کبھی کوئی معاملہ درپیش آنا ہوتا ہے تو ہم جیسے عام اور مقروض ممالک میں باقاعدہ ایک ون مین شو مقرر کر دیا جاتا ہے۔ افغان وار کے بعد 9/11 میں ایک مزید مفرور آمر مشرف اس ملک پر قابض ہوا اس کے بعد اب 2023 میں سعودیہ ترکی معاملات پرچونکہ دنیا میں پاور منتقلی کا معاملہ درپیش ہے تو اس سے قبل پاکستان کے حالات خراب ہونا کوئی نئی اور حیرانگی کی بات نہیں ہے بلکہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کے لئے تو سونے پر سہاگہ ہے کہ ایسے موقع پر ملک میں ایک ناکام اور انتہائی غیر زمہ دار سیاسی نابالغ شخص کی حکومت ہے جس کہ خلاف ہر طبقہ احتجاج پر ہے۔
اس ملک میں ایسے موقع پر ہمیشہ جو پلان ہمیشہ کامیاب رہے ہیں ان میں فرقہ واریت ، مذہبی منافرت سب سے اہم رہا ہے۔ ملک میں کوئی ایسا معاملہ کروا کر مذہبی لوگوں کو بھڑکا دیا جائے اور عوام کو ان تک رسائی دے کر ان کے لئے ملک کے چوک چوراہے کھول دئیے جاتے ہیں اور بعدازاں ان سے ہمدردی کا نعرہ لگاتے ملک پر اپنے مفادات کو تحفظ دے دیا جاتا ہے حالانکہ مذہب کے لئے نکلے رہنماوں کو خود اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ کسی کہ ہاتھوں میں استعمال ہو رہے ہیں اور کس کا مشن مہم آگے بڑھا رہے ہیں ۔ مذہبی لوگ اپنی صاف نیت سے بھی نکلیں تو ان سے فائدہ ہمیشہ انہی کو ہوتا ہے جو ان کے لئے راہ ہموار کرتے ہیں۔ بھٹو کہ خلاف اٹھنے والی تحریک بھی کب کس طرح ضیا الحق کا راستہ صاف کر رہی تھی وہ ان جید شخصیات کو بھی اندازہ نہ تھا اور ضیا الحق کے کئے حملوں سے یہ ملک آج تک سنبھل نہیں پایا۔
بد قسمتی سے پاکستان میں اشرافیہ جب نوجوان نسل کو تاریخی طور پر دماغی معذور کرنے کی ابتدا کرتا ہے تو سب سے پہلے بتاتا ہے کہ پاکستان کا سب سے ترقی یافتہ اور قابل اعتماد دور فیلڈ مارشل ایوب خان کا دور تھا مگر اس سر زمین پر قوم کی سچ اور حق کو پہچاننے کی حس کو کئی عشرے لگا کر مٹا دیا گیا ہے جو یہ بتانے اور جاننے کے قابل نہیں رہے کہ اگر آپ پاکستان کو قائد کا پاکستان مانیں گے تو آپ کو ایوب کو غلط ماننا پڑے گا اور اگر آپ ایوب کو صحیح مانیں گے تو آپ کو قائد کی سوچ اور نظریات کے مخالف جانا پڑے گا۔ تاریخ کے حقائق کہ مطابق ایوب کا کردار قائد کی نظر میں کیسا تھا ملاحظہ کریں۔
قائد اعظم کو سول ملٹری کے آفسروں کے بارے میں جو خدشات تھے ان کا مشاہدہ اس وقت ہوا جب ایوب خان کو مہاجرین کی آباد کاری کے سلسلہ میں سردار عبد الرب نشتر کی معاونت کی ذمہ داری سونپی گئی سردار عبدالرب نشتر نے قائد اعظم کو رپورٹ پیش کی کہ ایوب خان نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی اور اس کا رویہ پیشہ وارانہ نہیں ہے قائد اعظم نے فائل پر لکھا ‘میں اس آرمی آفسر کو جانتا ہوں وہ فوجی معاملات سے زیادہ سیاست میں دلچسبی لیتا ہے اس کو مشرقی پاکستان ٹرانسفر کیا جاتا ہے وہ ایک سال تک کسی کمانڈ پوزیشن پر کام نہیں کرے گا اور اس دوران بیج نہیں لگائے گا۔ اس بات کا تذکرہ کتاب "ڈیریلمنٹ آف ڈیموکریسی" اور (تنویر زاہد لاہور کا ایک خط) ‘ڈان’ 29 دسمبر 2001میں کیا گیا ہے ۔
(تنویر زاہد کا دعوی ہے کہ یہ خفیہ فائل کیبنٹ میں موجود ہے جسے ڈی کلاسیفائی نہیں کیا گیا)
ایم ایس کوریجو کہ مطابق ایوب خان فور سٹار جنرل بننے سے پہلے ریٹائر ہو جاتے اگر قائد اعظم کچھ وقت اور زندگی پا لیتے۔ اس بات کا تذکرہ وہ "سولجر آف مس فارچون" کے صفحہ نمبر 30 پر کرتے ہیں ۔ پاکستان کے بنتے ہی قائد نے ہر محکمے میں مختلف مذاہب اور قوموں کے افراد کو شامل کیا کیوںکہ قائد لسانیت کی بنا پر نہیں بلکہ قابلیت کی بنیاد پر ملک کو چلانا چاہتے تھے یہی وجہ تھی کہ قائد نے پاک فوج میں بھی کئی غیر ملکی لوگوں کو شامل کیا تاکہ ان کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ ’قائد اعظم نے یوم آزادی 14 اگست 1947 پر ایک نوجوان پاکستانی کو ڈانتا‘ اصغر خان کے مطابق یہ نوجوان لیفٹیننٹ کرنل اکبر خان تھے جو بعد میں میجر جنرل بنے اور روالپنڈی کیس میں ملوث ہوئے، اس بات کا تذکرہ کتاب ’وی لرن نتھنگ فارم ہسٹری‘میں اصغر خان نے کیا۔یہ وہ حوالاجات ہیں جو مطالعہ پاکستان میں نہیں پڑھائے جاتے مگر تاریخ پاکستان کے کئی حقیقت شناس مصنفوں نے اس کو اپنی کتب میں محفوظ کر کے عوام تک سچ پہنچانے کی جرات کی ہے مگر اگر عوام ہی سچ جاننا نہ چاہے اور سچ لکھنے پڑھنے کو تنازعات اور سازش کا نام دے تو یقین کیجئے ہم آج بھی ذہنی پستی میں وہیں کھڑے ہیں جیسا کہ 1947 سے قبل تھے۔