تو بعض لوگ جو مخالفت برائے مخالفت کرتے رہتے ہیں، نے آسمان سر پر اٹھا لیا کہ یہ کونسا نیٹ ورک تھا ؟ کونسی سم تھی؟ کونسا موبائل تھا؟ پی ٹی سی ایل لینڈ لائن تھی؟ وغیرہ وغیرہ۔
یہ سوالات میرے ذہن میں کوئی معنی نہیں رکھتے کیونکہ اصل یہ نہیں بلکہ اصل یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن ملک وقوم کیلئے کتنے فکرمند ہیں؟ جیسے بھی تھا، اصل تھا یا خواب تھا، اس کو چھوڑیں، یہ دیکھیں کہ حضرت مولانا صاحب بدامنی سے کتنے پریشان ہیں۔ مولانا فضل الرحمن جانتے تھے کہ اب مانگنے کا وقت ہے، قبولیت کا وقت ہے لیکن انہوں نے صدر پاکستان بننا نہیں مانگا، اپنے آپ کو وزیراعظم بنانے کا نہیں کہا۔ ورنہ تو جس طرح وکی لیکس میں آیا تھا کہ مولانا فضل الرحمن نے وزیراعظم بننے کیلئے امریکہ سے مدد طلب کی تھی اور ایک موقع مانگا تھا لیکن یہ موقع ہنوز نہیں دیا جا رہا۔
دراصل کچھ عالمی قوتیں پاکستان ہی نہیں بلکہ مسلم دنیا کی ترقی یا بالا دستی نہیں چاہتیں۔ اس لئے حکومت کیلئے ایسی قوتوں کو لایا جاتا ہے جو ان کے مفاد میں ہوں۔
پاکستان نے اگرچہ 1947ء میں برطانوی راج سے آزادی حاصل کر لی تھی لیکن ابھی حقیقی آزاد نہیں ہوا کیونکہ آج تک انہیں حقیقی لیڈر نصیب نہیں ہوا۔ قائداعظم اور نوابزادہ لیاقت علی خان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو ایسے لیڈر تھے جنہیں ناصرف دنیا جانتی تھی بلکہ وہ بھی دنیا کو جانتے تھے اور عوام میں مقبول تھے۔ یہی وہ وجہ تھی کہ ان کے ذہن میں ناصرف حقیقی آزادی کی شمع جل رہی تھی بلکہ وہ مسلم دنیا کا بلاک بنانے میں بھی مصروف ہوگئے۔ انہیں اس جرم کی سزا پھانسی کی شکل میں دی گئی۔ جس پر اگرچہ اس وقت پاکستانی قوم خاموش رہی لیکن اب حالات ویسے نہیں۔
سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل محمد ضیا الحق نے عوام میں مذہبی چورن بیچا جو ناصرف ہاتھوں ہاتھ بکا بلکہ اب تک ہم اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ لیکن اگر کبھی آپ کو جنرل ضیاء الحق کا اندرون معلوم ہو جائے تو حیران ہوں گے۔ جس طرح پیارے ملک پاکستان میں بعض لوگ اور ادارے مقدس گائے بنے ہوئے ہیں۔ ان پر اعتراض کرنا اپنے آپ کو مشکلات میں ڈالنا ہے۔ اس لئے لوہا لوہے کو کاٹتا ہے کہ مصداق ہمیں بھی بریگیڈیئر ترمذی کی کتاب " حساس ادارے" دیکھنا ہوگی کہ جنرل ضیاء الحق کتنے آزاد تھے؟
آج حالات کچھ یوں ہیں کہ کچھ نہ کچھ آزادی پاکستانیوں کو مل چکی ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں لیکن سوشل میڈیا پر اعتماد مشکل ہی ہے۔ کیونکہ اس بازار میں اصل اور نقل کی پہچان بڑی مشکل ہے۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ ہمارے محلے کے بزرگ مولانا غازی مرجان مرحوم صبح سویرے میرے پاس آئے اور اخبار دکھایا جس میں مولانا فضل الرحمن کے بھائی مولانا عطاء الرحمن نے چارسدہ میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے خلاف بیان دیا تھا۔
مولانا غازی مرجان مرحوم جمعیت علمائے اسلام میں مولانا فضل الرحمن کے والد مفتی محمود مرحوم کے اس وقت کے ساتھی تھے، جب پورے ضلع میں گنتی کے چند لوگ ہی جمعیت علمائے اسلام کا حصہ ہوتے تھے۔
مولانا غازی مرجان بڑے رنجیدہ تھے اور فرما رہے تھے کہ جس طرح ہم جمعیت والے مولانا مفتی محمود کی عزت کرتے تھے اب مولانا فضل الرحمن کی کرتے ہیں۔ اس کے بعد اگر جمعیت کا کارکن کسی کو اپنے نظریہ کے قریب پاتا ہے تو وہ عمران خان ہیں۔ اور ہم یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ایک دن پاکستان کے نوجوانوں کی اکثریت ذوالفقار علی بھٹو کی طرح عمران خان کے گرد جمع ہوگی۔ مذہبی قوتیں مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں جمع ہوں گی اور دونوں ایک ساتھ اقتدار میں آئیں گے۔ مغربی ممالک کیلئے عمران خان اور سعودی و دیگر برادر اسلامی ممالک کیلئے مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں پاکستان اسلامی بلاک بنانے کی کوششیں شروع کرے گا اور کامیاب ہوگا۔
لیکن مولانا عطاء الرحمن نے عمران خان کی مخالفت شروع کرکے اچھا نہیں کیا۔ اب مجھے لگ رہا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام کسی اور کے اشارے پر کہیں نامعلوم منزل کی طرف جا رہی ہے۔
اب آتے ہیں موجودہ دور کی طرف، اگر آصف علی زرداری کو لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹنے والے میاں شہباز شریف اسی آصف علی زرداری کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی جعلی عریاں تصاویر پھیلانے والے میاں نواز شریف اسی محترمہ کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں۔ تو کیا عمران خان اور مولانا فضل الرحمن ایک ساتھ نہیں بیٹھ سکتے؟
اگر عمران خان پنجاب کے سب سے "بڑے ڈاکو" پرویز الٰہی کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں حکومتی اتحادی بن سکتے ہیں۔ ایم کیو ایم سے مل کر حکومت چلا سکتے ہیں۔ تو کیا مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مل کر نہیں بنا سکتے؟
اگر مولانا فضل الرحمن جمعیت کی شدید مخالف خیبر پختونخوا کی عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ مل اور بیٹھ سکتے ہیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن اور سندھ کی پیپلز پارٹی سے مل کر حکومت گرانے کی تحریک چلا سکتے ہیں۔ اور پھر پی ڈی ایم میں ایم کیو ایم، بلوچستان عوامی پارٹی اور دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنا سکتے ہیں تو عمران خان کے ساتھ کیوں نہیں؟
جمعیت علمائے اسلام مذہبی سیاسی جماعت ہے اور اسمبلی میں کم نشستوں کے باوجود مولانا فضل الرحمن کی قیادت کی وجہ سے ہمیشہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ عمران خان کرپٹ عناصر کے خلاف باقاعدہ مہم چلا رہے ہیں اور یہی ان کا بیانیہ رہا ہے لیکن اس کیلئے بھی انہیں زیادہ سے زیادہ عوامی اور سیاسی حمایت درکار ہوگی۔
موجودہ سیاسی پارٹیوں میں کرپشن سے پاک ہونے کا دعویٰ صرف جماعت اسلامی کر سکتی ہے۔ اس کے بعد گراف کو دیکھنا پڑے گا کہ دوسرے اور تیسرے نمبر پر کون ہیں؟ تو یقینی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ دوسرے اور تیسرے نمبر پر جمعیت علمائے اسلام اور پاکستان تحریک انصاف ہے۔
جس طرح پرویز مشرف کے دور صدارت میں آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ جلد ایوان صدر سے جئے بھٹو کے نعرے لگیں گے تو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ آصف علی زرداری پاکستان کے صدر بنیں گے۔ اسی طرح اب یہ امید کی جا رہی تھی کہ حکومت تبدیل ہوتے ہی ایوان صدر سے "یو آواز یو قوت جمعیت جمعیت" کی صدائیں گونجیں گی لیکن ہنوز دلی دور است۔
چونکہ ملک عزیز تجربہ گاہ ہے اس لئے اب ایک اور تجربہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ عمران خان اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان مصالحت ہو جائے اور جماعت اسلامی کو اتحاد میں شامل کیا جائے۔ اگرچہ جماعت اسلامی اپنے نشان پر الگ انتخاب لڑنے کا یکطرفہ فیصلہ کر چکی ہے۔
اس سے تینوں کو فائدہ ہوگا۔ تحریک انصاف کو صاف شفاف ممبران اسمبلی مل جائیں گے۔ جس سے عمران خان دوبارہ آسانی سے اقتدار میں آ جائیں گے اور ملک کو آئی ایم ایف و عالمی استعمار سے آزادی دلانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ مولانا فضل الرحمن صدر بن جائیں گے اور ایوان صدر سے "یو آواز یو قوت جمعیت جمعیت" کی صدائیں سنائی دے گی۔ جبکہ جماعت اسلامی کو سینیٹ آف پاکستان میں کردار دے کر سود کے خلاف قانون سازی، اسلامی قوانین کے نفاذ کا موقع مل جائے گا۔ اور یوں پاکستان حقیقی ریاست مدینہ بننے کی راہ پر گامزن ہوگی کیونکہ شہباز شریف کی موجودہ کمپنی چلنے والی نہیں ہے۔