خیر سے اب عمران خان صاحب وزیراعظم بن گئے ہیں اور اپنے حالیہ خطاب میں فرماتے ہیں کہ پاکستان کا قرضہ پندرہ ہزار ارب روپیہ سے بڑھ کر اٹھائیس ہزار ارب روپے ہوچکا ہے۔ ارے بھائی خان صاحب آپ ابھی تک خود کو کنٹینر پر کھڑا ہو کر چنگھاڑنے اور الزامات لگانے والا کھلنڈرا ہی سمجھ رہے ہیں۔ اب آپ جیسے تیسے کر کے ملک کے وزیراعظم بن چکے ہیں تو اب آپ کا فرض ہے کہ درست اعدادوشمار پیش کریں اور ساتھ وجوہات بھی بیان کریں۔ آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ جو نمبر آپ نے دیا 28000 ارب روپے کا وہ درست نہیں بلکہ حقیقت میں یہ 23000 ارب سے کچھ زیادہ کا فگر ہے اور ساتھ یہ بتانا لازم ہے کہ یہ پاکستان کا اندرونی قرضہ ہے نہ کہ دوسرے ملک یا IMF وغیرہ سے لیا گیا قرضہ۔
قرض لینا کیوں ضروری ہوتا ہے؟
اب سوال یہ ہے کہ یہ قرضہ کیوں ہے؟ تو اس کا سادہ ترین جواب یہ ہے کہ پاکستان کی آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہیں یا دوسرے الفاظ میں کہہ لیں کہ پاکستان کی برآمدات کم اور درآمدات زیادہ ہیں اور کوئی خاص حالات جیسا کہ سی پیک نہ بھی ہو تو درآمدات زیادہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ پاکستان کا تیل پیدا نہ کرنے والا ملک ہونا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو تیل کی بھاری درآمد کرنی پڑتی ہے اور پھر لازمی بات ہے کہ جتنی زیادہ تیل کی درآمد ہوگی اسی تناسب سے درآمدی بل بڑھتا رہے گا۔ مزید یہ کہ پاکستان کے پاس دوسرے کئی وسائل، مثال کے طور پر مشینری اور ٹیکنالوجی، بھی نہیں ہیں تو یہ بھی درآمدی بل بڑھانے کا مؤجب بنتے ہیں۔
قرضہ تو آپ کو بھی لینا ہی ہوگا
اب خان صاحب آپ کچھ بھی کر لیں، چاہے الٹے لٹک جائیں، اندرونی اور بیرونی قرضہ تو آپ کو بھی لینا پڑے گا تاکہ درآمدی بل کی ادائیگی ہو سکے۔ باقی پرانے قرضے اور ان کے سود کی ادائیگی وہ الگ خرچہ ہے۔ یہ تمام خرچہ یا قرضوں کا چکر صرف اسی صورت ختم ہو سکتا ہے کہ یا تو پاکستان میں ہماری ضرورت کے مطابق تیل نکلنا شروع ہو جائے یا برآمدات بڑھ کر درآمدات سے زیادہ ہو جائیں، اور یہ کیسے ہو یہ ایک علیحدہ بحث ہے۔
پاکستان کا قرض بڑھنے کے فوائد
اب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ قرضہ پچھلے دور حکومت میں بڑھا کیسے؟ ان قرضوں کے بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ سی پیک جیسا بہت بڑا منصوبہ ہے جس کے لئے پھلے چار سال میں 30 ارب ڈالر کی پاورپلانٹس مشینری اور دیگر اضافی درآمدات ہوئیں جس کی وجہ سے پاکستان کا درآمدی خرچہ بہت بڑھ گیا۔ اگر سی پیک کے لئے یہ درآمدات نہ ہوتیں تو یہ اضافی قرضہ نہ بڑھتا۔ نہ درآمدی بل بڑھتا نہ پاورپلانٹس لگتے اور نہ 11000 میگاواٹ نئی بجلی بنائی جا سکتی، نہ سڑکوں کا جال بچھتا اور نہ دوسرے ترقیاتی کام ہو پاتے۔ یہ اضافی درآمدات ہوئیں تو بجلی کے نئے کارخانے لگائے گئے اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوا جس سے انڈسٹری کو بھی بلاتعطل بجلی کی فراہمی ممکن ہوئی اور اس کے نتیجے میں ملک میں نہ صرف نچلی سطح تک معاشی سرگرمی میں اضافہ ہوا بلکہ کئی مزید معاشی فوائد حاصل ہوئے جیسا کہ پاکستان کی GDP بڑھ گئی، سٹاک مارکیٹ میں اربوں ڈالر کی غیرملکی سرمایہ کاری ہوئی، افراط زر نیچے آئی اور عالمی ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کی معیشت کی اچھی پرفارمنس کی وجہ سے پاکستان کی معاشی ریٹنگ بڑھا دی۔
پاکستان کے قرضوں کا تقابل امریکہ اور جاپان سے
ہمارے نئے نویلے وزیراعظم صاحب کو کوئی بتائے کہ قرضوں کو ہمیشہ GDP کے تناسب سے چانچا جاتا ہے نہ کہ حجم سے۔ پاکستان کے قرضے GDP کے تناسب سے آج بھی 67 فیصد کے لگ بھگ ہیں جبکہ چاپان، امریکہ اور دوسرے کئی ترقی یافتہ مغربی ممالک کے قرضے ان کیGDP کے تناسب سے 90 سے 100 فیصد سے بھی زیادہ ہیں۔
جدید دنیا مین قرضوں کو برا نہیں بلکہ اچھا کہا جاتا ہے۔ اگر سی پیک جیسے منصوبوں کے لئے حاصل کیے جائیں تو قرضے بہت زیادہ اچھے ہوتے ہیں۔ آپ دوسروں کے پیسے استعمال کر کے اپنی ترقی کا سفر کرتے ہیں۔ قرضے اگر غیر ترقیاتی کاموں کے لئے لیے جائیں تو پھر معاشی بوجھ بنتے ہیں۔ سابقہ حکومت نے معاشی منصوبوں کے لئے قرضے لیے تھے اور وہ تمام منصوبے پوری دنیا کے سامنے ہیں جن کے ثمرات پاکستانی قوم کو بھی ملنا شروع ہو گئے ہیں۔ اب اگر ہمارے نئے وزیراعظم صاحب اور ان کی ٹیم آنکھیں بند رکھے تو پھر انہیں کچھ بھی اچھا نظر آنا ممکن نہیں۔