اس فہرست میں سب سے نمایاں نام شاعر احمد فراز کا ہے جن کی تعریف کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے برابر ہے۔ مقام حیرت ہے کہ اس عظیم شاعر کو اب تک سول ایوارڈ کیوں نہیں ملا تھا۔ کیا احمد فراز کی شاعری پر اس عہد میں کوئی انگلی اٹھا سکتا ہے؟ ان کے مقام اور مرتبے سے سب واقف ہیں۔ لہٰذا یہ ایک بلا جواز تنقید ہے کہ چونکہ ان کے بیٹے شبلی فراز وفاقی وزیر ہیں اس لئے ان کو ایوارڈ ملا۔
سرمد صہبائی ایک اور بہت بڑا نام جو ترقی پسند ادب کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ بطور شاعر اور ڈرامہ نگار ان کے کریڈٹ میں جو کام ہے، اس حساب سے یہ ایوارڈ ان کو بہت پہلے مل جانا چاہیے تھا۔ تھیٹر کے حوالے ان کا نام بہت متبعر ہے۔ شاعری میں ان کی کتاب ’پل بھر کا بہشت‘ قابل مطالعہ ہے۔ مرزا اطہر بیگ عصر حاضر میں فکشن لکھنے والوں میں ایک بلند ترین مقام رکھتے ہیں۔ ان کے ناول ’غلام باغ‘ کو اردو افسانے میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے اور اردو ناول کے دس بڑے ناولوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے ناول صفر سے ایک تک، حسن کی صورت حال بڑی ادبی تخالیق ہیں۔ مرزا اطہر بیگ کی افسانوں کی کتاب بے افسانہ بھی شائع ہو چکی ہے۔ اس کے علاہ ان کے ٹی وی ڈراموں میں دلدل ایک بامقصد ڈرامہ تھا جس میں فلسفہ تھا۔ بیگ صاحب فلسفی ہیں۔
فاروق قصیر ٹی وی کی دنیا کا ایک اور بہت بڑا نام ہے۔ انکل سرگم کا کردار ان کی ہی تخلیق ہے جس کا ایک زمانہ متعرف ہے۔ اگر فن مصوری کی بات کی جائے تو صادقین اور شاکر علی جیسے مہا تصویر سازوں کے نام آتے ہیں۔ آج تک ایسے مصوروں کے نام نظر انداز ہوئے۔ کھیلوں میں عبدالقادر کا نام آیا ہے۔ کرکٹ کی دنیا کے عظیم لیگ سپنر شین وارن ان کو اپنا استاد مانتے ہیں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی تحقیق کی دنیا کا بڑا نام ہیں۔ تاریخِ اردو ادب ان کی دو جلدوں پر مشتمل ایک بڑی کاوش ہے۔ دو سندھی ادیبوں کے نام بھی شامل ہیں جن میں تاج محمد جویہو اور مہتاب بانو شامل ہیں۔ تاج محمد جویہو نے ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا۔ بد قسمتی سے ان کا بیٹا مسنگ پرسنز میں شامل تھا جو اب بازیاب ہو چکا ہے۔ اب تاج صاحب کو اپنا فیصلہ بدل لینا چاہیے۔
سول ایوارڈ چونکہ وفاقی حکومت کے ہوتے ہیں، اگر گورنر سندھ عمران اسماعیل خود تاج محمد جویہو سے بات کریں تو بہت ہی قابل ستائش عمل ہو گا۔ ایک ادیب کے تحفظات دور ہونے چاہئیں۔ گلوکار علی ظفر کے نام پر بہت اعتراض ہوا ہے کہ جنسی ہراسانی کے الزامات جس پر لگائے گئے، اس کا نام کیوں شامل ہے۔ اس بار صحافت کے شعبے سے کسی کو نامزد نہیں کیا گیا، جو کہ ایک غلط روایت ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ افسر شاہی ان کو صحافت کے حوالے سے غلط گائیڈ کر رہی ہے۔ اس کا ردعمل بہت شدید ہو سکتا ہے۔