نظامِ تعلیم بہتر کئے بغیر "یکساں تعلیمی نصاب" فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے؟

02:12 PM, 25 Aug, 2021

بابر علی پلی
16 اگست 2021 سے موجودہ وفاقی حکومت نے صوبہ سندھ کے علاوہ ملک بھر میں یکساں قومی نصاب کے نفاذ کا اعلان کیا۔ جس کے بعد ملک کے تعلیمی حلقوں میں ایک قسم کی بحث چھڑ گئی، اساتذہ بھی اس نئےنصاب سے متعلق تذبذب کا شکار نظر آئے چونکہ اس نصاب کے حوالے سے کوئی تربیت نہ دی گئی تھی، اور والدین بھی پریشان معلوم ہوئے۔

بلوچستان کی صوبائی حکومت نے رواں سال سے یہ نصاب نافذ کرنے سے معذرت ظاہر کردی، البتہ اگلے تعلیمی سال مارچ 2022 میں اس نصاب کو صوبے بھر میں نافد کرنے کی یقین دہانی ضرور کرائی گئی ہے۔ جبکہ حکومت سندھ اس نصاب پر آمادہ ہونے کے لئے تیار نہیں۔ وفاقی وزیرتعلیم شفقت محمود کا کہنا ہے کہ سندہ حکومت کے ساتھ یکساں قومی نصاب پر بات چل رہی ہے امید ہے کہ سندھ میں بھی اس نصاب کا نفاذ ہوجائیگا۔ جبکہ سندھ کے وزیر تعلیم کا کہنا ہے کہ وہ صوبے میں وفاقی حکومت کا یکساں نصاب نہیں پڑھائیں گے۔

وزیر تعلیم سندھ سید سردار علی شاہ نے اپنا موقف دیتے ہوئے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم صوبوں کے صوابدید ہے۔ اس لیے صوبوں کو حق ہے کہ وہ اپنا نصاب تیار کریں۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ وفاقی وزیر شفقت محمود نے کہا تھا کہ یکساں قومی نصاب پی ٹی آئی کے منشور کا حصہ ہے۔ اس لیے سندھ حکومت پر یہ فرض نہیں ہے کہ وہ تحریک انصاف کے انتخابی منشور کو پورا کرے۔ یکساں قومی نصاب سندھ کی شرکت کے بغیر قومی اور یکساں نصاب نہیں بن سکتا۔
وزیر تعلیم سندھ نے کہا کہ سندھ سائنس کے مضامین میں چند بہتر تبدیلیاں قبول کر سکتا ہے۔ لیکن سماجی علوم میں ، ہر صوبے کی اپنی تاریخ ، ثقافت اور ہیروز ہوتے ہیں۔ ہم نے اپنے نصاب میں قومی ہیروز کے اسباق کو شامل کیا ہے۔ اگر ہم اردو اور انگریزی کے ساتھ سندھی پڑھانا چاہتے ہیں تو یہ ہمارا آئینی اور تاریخی حق ہے اور ہم اسے نہیں چھوڑیں گے۔

میرے خیال سے ایک حوالے سے وزیر تعلیم سندھ کا یہ موقف کافی حد تک درست ہے۔ لیکن، یکساں نصاب پر صرف سندھ کو ہی اعتراضات نہیں بلکہ دیگر تعلیمی ماہرین نے بھی نصاب پر مختلف اعتراضات و خدشات کا اظہار کیا ہے۔ آئیے سب سے پہلے شفقت محمود کا نصاب کے حوالے سے موقف جانتے ہیں اور آگے چل کر مختلف اعتراضات آپ کے سامنے عرض کرنے کی جسارت کریں گے۔

یکساں تعلیمی نصاب کی ضرورت کیوں پڑی؟

15 اگست کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے شفقت محمود کا کہنا تھا کہ موجودہ تعلیمی نظام ناانصافی پر مبنی ہے۔ ایک چھوٹا طبقہ خاص قسم کی تعلیم حاصل کررہا ہے اس کے لئے زندگی میں آگے بڑھنے کے بے شمار مواقع ہیں اور ایک طبقہ وہ ہے جو سرکاری اسکولوں اور مدارس میں تعلیم حاصل کرتا ہے اور ان کے لئے بے پناہ دشواریاں  ہیں۔ اور اسی طرح موجودہ نظام نے معاشرے کو بھی تقسیم کردیا۔

وزیر تعلیم کا کہنا تھا کہ یکساں تعلیمی نصاب کے مطابق ناظرہ تک قرآن شریف کی تعلیم لازمی کی گئی ہے۔ بچوں کی تربیت کے لئے سیرت النبی صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی زندگی کے واقعات کو بھی نمایاں حیثیت دی گئی ہے۔ شفقت محمود کا مزید کہنا تھا کہ یکساں تعلیمی نصاب ملک کے لئے ایک انقلابی قدم ثابت ہوگا۔ یہ تھا شفقت محمود کی پریس کانفرنس کا کل حاصل۔

اس وقت ہمارا تعلیمی نظام تین حصوں میں تقسیم ہے: پہلا ہے پرائیویٹ اسکول، جہاں پر صرف وہی بچے تعلیم حاصل کرسکتے ہیں جو منہ میں سونے کا چمچہ لیکر پیدا ہوئے ہوں۔ ان سکولوں میں تعلیمی اخراجات صرف وہی والدین برداشت کرسکتے ہیں، جن کے پاس بے دریغ دولت کے خزانے ہوں۔
دوسرا سرکاری اسکول، یہاں درمیانی طبقے سے تعلق رکھنے والے والدین کی اولاد کچھ حد تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔
تیسرا ہے مدارس کا نظام: جہاں پر صرف غریب ترین طبقے سے تعلق رکھنے والے طلباء ملیں گے۔

شفقت محمود نے بجا فرمایا کہ یہی نظام آگے چل کر معاشرے میں واضح تقسیم لیکر آتا ہے۔ جیسے کہ پرائیویٹ اداروں، ایچیسن، بیکن ہاؤس جیسے اداروں میں پڑھنے والے ہی ملک سیاسی اور معاشی طور پر غالب ہیں۔ سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے ہمیں اکثر سرکاری نوکریوں کے لئے ڈگریاں فوٹوکاپی کراتے نظر آتے ہیں، ان کی سوچ اکثر چھوٹی موٹی (معاشرتی لحاظ سے) سرکاری نوکری تک ہی محدود ہوتی ہے۔ اور اسی طرح انتہائی پست حال مدارس کے غریب طلباء بھی مختلف روزگار حیات کے ساتھ منسلک ہوجاتے ہیں۔

وطن عزیز میں روز اول سے ہی تعلیمی نظام کو کوئی خاص توجہ تو نہیں دی گئی تھی، البتہ اس کا مزید بیڑہ غرق کرنے اور طبقاتی تقسیم کو مزید وسعت دینے کا سہرا جنرل ضیاء الحق کو ضرور جاتا ہے۔ اس کا تفصیلی ذکر کرنے لگ گئے تو بات کافی لمبی چوڑی ہوجائے گی، اس لئے مختصراً، جنرل صاحب ملک میں اسلامی نظام کا نعرہ بلند کرکے میدان عمل میں کود پڑے۔ ہر جگہ، ہر شعبے میں اسلامی نظام متعارف کرانے کی ٹھان لی، اور پھر وطن عزیز ایسا بھٹکا کہ آج تک سنبھل نہیں پایا۔ اسی تسلسل میں مدارس میں بھی ایک خاص قسم کی ذہنیت پیدا کی گئی اور پھر ان سے مجاہدین کا کام لیا گیا۔ اسی دوران نجی تعلیمی ادارے بھی خوب پھلے پھولے اور یونہی یہ طبقاتی تقسیم پروان چڑھتی گئی۔ مدارس کے غریب پاکستانی بچے افغان جہاد کے محاذ کے لئے تیار کئے گئے اور دوسری طرف بڑے بڑے چم چماتے ہشاش بشاش محل نما نجی ادارے آلِ اشرافیہ کے لئے مختص کئے گئے۔

یکساں نصاب کے حق میں کچھ ماہرین و تجزیہ نگار یہ بھی لکھتے ہیں کہ دنیا کے ساتھ قدم بہ قدم چلنے کے لئے کسی بھی ترقی پذیر ملک کے لئے تعلیم کے لئے ایک متفقہ فریم ورک رکھنے کا ایک صحیح وقت کئی دہائیاں پہلے تھا اور ہمارے لئے دوسرا صحیح وقت اب ہے۔

یکساں نصاب کے حق میں ایک عام تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ اس سے امتحانی عمل کے ذریعے ملک کے بچوں کے درمیان تفریقات ختم ہو جائیں گے۔ پورے ملک میں بچے بلا صنفی، سماجی و معاشی امتیاز یکساں کورس پڑھیں گے، اور ان کا امتحان بھی یکساں انداز میں لیا جائے گا۔ کئی لوگ یہ مانتے ہیں کہ اس طرح بچوں میں پائی جانے والی تفریقات کو ختم کیا جاسکے گا اور سب کو برابر مواقع کی دستیابی ممکن ہوسکے گی۔

کچھ لکھاری اس نصاب کے فائدے بیان کرتے ہوئے یہ بھی لکھتے ہیں کہ یکساں نصاب سے سکول جانے والے بچے بھی اسلام کی تعلیم سے آشنا ہونگے اور مدارس کو بھی باقاعدہ سکولنگ کے دائرے میں لایا جائے گا، لاکھوں مدرسے کے طباء کو ملک کے دیگر طلباء کی طرح تعلیم حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔

جبکہ بعض ماہرین کی رائے ہے کہ یکساں نصاب سے تفریقات میں کمی لانے میں مدد نہیں ملے گی۔ پاکستان میں بچوں کا تعلق مختلف سماجی و اقتصادی طبقات اور مختلف تعلیمی پس منظر رکھنے والے خاندانوں سے ہے۔ بچوں کی تعلیم پر کہیں زیادہ سرمایہ مختص کیا جاتا ہے اور کہیں کم، تمام بچے زبان پر یکساں انداز میں عبور نہیں رکھتے ہیں، ان کا تعلق مختلف ثقافتی و مذہبی پس منظر سے ہے جبکہ یہ الگ الگ جغرافیائی ماحول میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ یکساں نصاب، ایک جیسی کتابوں یا یکساں امتحانی عمل سے تفریقات میں کمی واقع نہیں ہوگی الٹا اس طرح تفریقات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

اگر امتحانات بہت ہی مشکل ہوئے تو ان میں کامیابی حاصل کرنے والوں اور ناکام ہوجانے والوں کے درمیان تفریق پیدا ہوگی۔ کسے ملازمتوں تک رسائی مل سکتی ہے اور کسے نہیں اس تناظر میں جب میٹرک پاس اور میٹرک فیل کے درمیان فرق کو ادارتی صورت دی جائے گی تو تفریقات میں کمی کی بجائے اضافہ ہوگا۔

پاکستان کے ایٹمی طبیعیات دان اور ماہر تعلیم ڈاکٹر پرویز امیر علی ہودبھائی یکساں نصاب پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ مدارس میں سائنس کیسے پڑھائی جائیگی۔ جس طرح سائنس پڑھائی جانی چاہئے، اس طرح سے مدارس میں کبھی پڑھائی نہیں گئی۔ سائنس میں رٹہ کام نہیں آتا بلکہ عقل و خرت کا استعمال کیا جاتا ہے۔ پرویز ہودبھائی کے مطابق مدارس کی تعلیم ہمیں زندگی بعدالموت کے لئے تیار کرتی ہے، جبکہ سکولوں کی جدید تعلیم ہمیں اِس دنیا کے لئے تیار کرتی ہے۔ ان دو مقاصد کو یکجا کرنا ناممکن ہے۔

پاکستان کے ایک نیورولوجسٹ ڈاکٹر اے ایچ نیئر نے لکھا کہ یکساں نصاب میں مذہبی مواد بہت زیادہ شامل کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق صرف پہلی سے پانچویں جماعت تک ہی اتنا مذہبی مواد ڈال دیا گیا ہے جتنا مدارس میں بھی نہیں پڑھایا جاتا۔ اس سے یہ قطعاً مقصود نہیں کہ بچوں کو اسلام کی تعلیمات سے آشنا نہ کرایا جائے بلکہ اس میں بچوں پر بہت ہی زیادہ اضافی بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔

کچھ ماہرین نے یکساں قومی نصاب کے اقدام کو ریاستی انجنئیرڈ تجربے کا تسلسل قرار دیا ہے۔ جس کا مقصد صرف طلباء میں دلائل و منطق کے جوہر کو ختم کرنا ہے۔ جس میں ریاست کافی حد تک کامیاب بھی ہوئی، جیسے کہ ملک کی ایک بڑی آبادی سائنس کو دھوکہ سمجھتی ہے اور زمین کے جامد ہونے پر یونیورسٹیز تک میں بحث چھڑگئی۔ نصابی کتابوں کے ذریعے مذہب کو قومی نفسیات کے ساتھ ملانے کا ثمر یونیورسٹیز کیمپس میں ہجومی قتل کی تسبیح جیسے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے۔

یکساں نصاب پر ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ پاکستان کے ہر صوبے کی الگ الگ ثقافت اور ان کے الگ الگ علاقائی ہیروز ہیں، اگر نصاب اور کتب یکساں ہوں تو سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخواہ میں رہنے والے اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے بچوں کو یکساں کتابیں پڑھنا ہوں گی اور یوں ان کی علاقائی ثقافتیں، روایات، تاریخ اور ادب نظر انداز ہوجائے گا، اب کیا بلھے شاہ، شاہ عبدالطیف، رحمان بابا اور گل خان ناسر کا کلام سرے سے نہ پڑھایا جائے یا پھر سب کو لازماً پڑھایا جائے؟

ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ حکومت نے ملک میں یکساں قومی 'نصاب' کے نفاذ کا اعلان کیا ہے نا کہ یکساں قومی 'نظام'۔

چلو مان لیتے ہیں کہ ملک کے سب مدارس و سکول حکومت کے متعارف کرائے گئے اس نصاب کی پیروی کریں گے، لیکن کیا ان مدارس، سرکاری اور نجی سکولوں میں معیار ایک جیسا ہوگا، مثلاً: کیا سرکاری سکول اور مدارس میں طلباء کو ایسا ماحول فراہم کیا جائے گا جو ایچیسن، کنوینٹ اور بیکن ہاؤس میں فراہم کیا جاتا ہے۔

ملک میں تقریباً دو لاکھ سکول ہیں جن میں کئی ایسے ہیں جو غیر فعال پڑے ہیں، کئی ایسے ہیں جو خستہ حال ہیں اور تقریباً 48 فیصد سکول تو ایسے ہیں جہاں نہ چاردیواری ہے، واشروم کی سہولت ہے اور نہ ہی پینے لائق پانی ہے۔ مدارس کی اکثریت تو عوام کے چندوں پر چلتی ہے۔ کیا ان حالات میں یکساں نصاب رائج کرنے سے سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا؟

پاکستان دنیا کا دوسرا نمبر ملک ہے جہاں سب سے زیادہ بچے سکول نہیں جاتے۔ کیا وہ دو ڈھائی کروڑ بچےجو سکولوں سے باہر ہیں، یکساں نصاب سے پڑھنے لگ جائیں گے؟ کیا سرکاری سکولوں میں اس اقدام سے تعلیم کا معیار بہتر ہوجائے گا؟

یقیناً مدرسے کے طلباء کو قومی دھارے میں لانے کی اشد ضرورت ہے لیکن یہ ملک بھر کے سکولوں کے نصاب میں بنیاد پرست تبدیلیاں متعارف کرانے کے ذریعے نہیں ہونا چاہئے۔ بلکہ ملک بھر میں فعال ہر تعلیمی نظام میں بہتری لانی چاہئے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ بہتر امتحانی طریقے متعارف کرائے جائیں اور اساتذہ کو مناسب تربیت فراہم کی جائے تاکہ وہ تعلیمی ادارے جن کی کارکردگی قدرے اچھی نہیں ان کا معیار بہتر کیا جائے۔ درسی کتابوں اور کیمپسز میں نفرت انگیزی اور عدم برداشت سے متعلق مسائل کو بھی ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ہمیں اس وقت ایک ایسا نظام مرتب کرنا چاہئے جو جدید دنیا کے خطوط سے آراستہ ہو، جس سے وطن عزیز دنیا بھر سے معاشی و سائنسی لحاظ سے قدم بہ قدم چل سکے
مزیدخبریں