اس بات کو سمجھنے میں بھی کسی راکٹ سائینس کی ضرورت نہیں کہ دسمبر 2014 سے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان باقاعدہ جنگ شروع ہوگئی ۔کمپنی اور اسکے حلیفوں Allies نے واشنگٹن اور اپنے اپنے مقامی درالخلافہ سے اور طالبان کے سربراہان قطر میں کمپنی کی طرف سے عنایت شدہ luxurious دفتر سے اس خونی کھیل کا لائیو تماشہ دیکھ کر مزے لوٹتے رہے۔ یہ حقیقت بھی سب کے سامنے ہے کہ 2014 سے 2021 کی وسط تک کی اس طویل جنگ میں طالبان بڑے اور اہم شہر تو دور کی بات چند پہاڑی علاقاجات کے علاوہ کسی بھی آبادی والے ضلع پر قبضہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے ہیں۔ پھر اچانک کونسا الا دین کا چراغ یا سلیمانی انگوٹھی ہاتھ لگ گئی کہ ایک ماہ میں اور خاص طور پر ایک ہفتے میں انہوں نے سینکڑوں اضلاع پر قبضہ کیا اور پلک جھپکتے دارلحکومت کابل اور صدارتی ہاوس ارگ پر قبضہ کرلیا ۔ بے شک اس میں عقل والوں کیلئے بڑی نشانیاں ہیں ۔
ایک اور دماغ چکرانے والی حقیقت جسکا طالبان کے قبضے اور انکی نارملائیزیشن میں اہم حیثیت رکھتی ہے اور جس کا یہاں ذکر نہ کرنا طالبان کی اس کرشماتی پیش رفت کے ساتھ نا انصافی ہوگی ۔ وہ یہ کہ اس نئے منظر میں کمپنی اور اسکے حلیفوں کی طرف سے طالبان کو اچھے القابات میں پکارنا ، انکو افغانستان کے عوام کا ایک نمائندہ گروہ کے طور پر پیش کرنا۔ یہاں تک کہ صدر بائڈن کا اس پراجیکٹ میں پیش پیش ہونا۔ بی بی سی ، وائیس آف امریکہ ، سی این این سمیت بہت اہم بین الاقوامی اور مقامی خبر رساں اداروں کی جانب سے طالبان کو نارملائیز کرنا اور انکی افسانوی و معجزاتی حقیقت کو گلیمرائز کرنا اپنا مشن بنا لیا ۔ یاد رکھئے یہی ادارے ماضی میں طالبان کو لفظ دہشت گرد اور تخریب کار سے پکارتے تھے اور امریکہ طالبان پر ہر حملے کو " دہشتگردوں کے خلاف بڑی کامیابی! گزشتہ رات امریکہ نے افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنالیا جس کے نتیجے میں کئی بڑے دہشتگرد ہلاک اور متعدد زخمی" جیسی ہیڈ لائینز کے ساتھ خبر چھاپتے تھے۔ وہ اب انہیں دہشت گرد کی بجائے ہیرو اور مقامی نمائندہ گروہ کے طور پر دکھانے لگے ۔ پچھلے چند ماہ میں تو لگتا تھا کہ بی بی سی اور وائس آف امریکہ عالمی خبر رساں ادارے نہیں بلکہ طالبان کے ترجمان ادراے ہیں ۔ اپ نے دیکھا ہوگا کہ یہی وہ وقت تھا جب افغانستان سے اور پاکستان کے پشتون علاقوں سے فیسبک اور ٹویٹر پر unfollowBBC# ، #unfollowVOA ، اور BBCandVOAbehindterrorists# کے ہیش ٹیگز سے زبردست کمپین چلی اور لاکھوں لوگوں نے بی بی سی اور وائس آف امریکہ کو ان فالو کیا۔
اب بات کرتے ہیں پاکستانی عوام کی۔ طالبان اور انکی قابض حکومت کی حمایت کرنا اور کابل پر انکے کے قبضے پر جشن منانا ۔ کیا یہ اخلاقی طور پر جائز ہے یا نہیں؟ ویسے تو ہر کسی کا حق ہے کہ وہ اپنی عقل و فہم کے مطابق جسے چاہے آئیڈیل بنائے اور سپورٹ کرے۔ آئیں یہاں اس موضوع پر خالی الزہن ہوکر ایک relative تبصرہ کرتے ہیں ۔ کچھ وقت کیلئے مان لیتے ہیں کہ سامراج کی طرف سے طالبان کی بنیاد ، سپورٹ اور اقتدار پر قابض کروانا جیسے سارے الزامات غلط ہیں ۔ مگر بلآ خر اس بات کی نفی کرنا ممکن نہیں کہ طالبان بندوق کے زور پر قابض مسلح جھتہ ہے ۔ طالبان کو جتنا بھی گلیمرائز کیا جائے ، وہ جتنی بھی کوشش کرے کہ خود کو نارملائیز دکھائیں، ظاہری طور پر اپنے پرتشدد نظریات سے منحرف ہو جائیں، اس سب کے باوجود وہ ایک قابض مسلح جھتہ ہے۔ کیا ایسا متشدد اور راسخ العقیدہ مسلح جھتہ کا کسی سماج پر قابض ہونا جائز ہوسکتا ہے۔ جو بندوق کے زور پہ قابض ہونا تو جانتا ہے مگر بین الاقوامی سیاست ، بین القوامی امور ، خطے میں رواں پراکسیز اور حالات ، ڈپلومیسی ، سائینس اور ٹیکنالوجی کے بارے کچھ نہیں پتہ ۔ جو اکیسویں صدی کی جدید دنیا کے مقابلے ریاست کا نظم و نسق چلانا نہیں جانتا۔ جو قابض ہوکر اس سماج کی سینکڑوں سالوں پر محیط اصلی و تاریخی شناخت ، نام ، قومی جھنڈا ، قومی شناختی علامات اور باقی تمام قومی اساس جس کے ساتھ اس سماج کی رومانیت ہوتی ہے اور انکے جمالیاتی احساسات ہر فرد کے خون میں سرائت کر چکی ہوتی ہے ، کو پاوں تلے روندے اور انکی جگہ اپنے ذاتی متبادل رائج کریں ۔
اگر جواب ہاں ہے تو آئیں زرہ ہم اپنے ملک پاکستان پر نظر دوڑاتے ہیں تاکہ relative/comparative analysis کرکے آسانی سے سمجھنے کی کوشش کریں۔ ہمارے ملک پاکستان میں کئی اسلامی مسلح جھتے موجود ہیں کچھ کو کالعدم قرار دیا گیا ہے اور کچھ غیر کالعدم ۔ جیسا کہ جیش محمد ، سپاہ صحابہ ، البدر ، الشمس ، انصار المجاھدین ، تحریک طالبان پاکستان ، لشکر جھنگوی ، لشکر طیبہ اور تحریک نفاذ شریعت وغیرہ ۔ میرے معزز پاکستانی بھائیو ! کیا آپ یہ پسند کریں گے کہ ان مسلح جھتوں میں سے کوئی جھتہ حکومت پاکستان و افواج پاکستان کے خلاف مسلح جدوجہد کریں اور پنڈی اسلام آباد سمیت پورے ملک پر قابض ہوجائیں اور نام نہاد شریعت لاگو کرنے کی ٹھان لیں۔ یا پھر آپ چاہیں گے کہ دوسری مذہبی سیاسی جماعتیں جیسا کہ جمیعت علماء اسلام ، جماعت اسلامی اور تحریک لبیک والے جن کے لاکھوں فین فالورز ہیں پاکستان میں ریاست کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور ریاست کو شکست دینے پر سارے اداریں تحلیل کریں پارلیمنٹ اور جی ایچ کیو پر قبضہ کریں ۔ پاکستان کا پرچم اتار دیں اسکی جگہ اپنی متعلقہ شرعی پرچم لہرا دیں ، پاکستان کا ترانہ سمیت ساری شناختی علامات کو منسوخ کرکے اپنے متبادل نصب کریں ۔ کیا آپ مولانا فضل الرحمن ، مولانا مسعود اظہر ، حافظ سعید ، لیاقت بلوچ ، لالا سراج الحق ، فرزند مولانا سمیع الحق مولانا حامد الحق ، فرزند خادم رضوی سعد رضوی ، مفتی نور ولی وغیرہ کو پاکستان کا سپریم لیڈر یا امیر المومنین تسلیم کرنے کو تیار ہیں؟
اگر اپکا جواب ہاں ہے ۔ پھر تو ٹھیک آپ کے ساتھ میں بھی طالبان کے افغانستان پر قبضہ کو ویلکم کرتا ہوں تاکہ پورے خطہ میں بیک وقت شریعت آجائے اور اسلام کا بول بالا ہو جائے ۔ اگر آپ ایسا نہیں چاہتے اور آپ یہ سب صرف پڑوسیوں کیلئے چاہتے ہیں تو یہ صریح منافقت ہے ، ظلم ہے ، بے حسی ہے اور نفاق ہے کیونکہ ایک تو اسلام کسی بھی سرحد سے بالاتر ہوکر پوری دنیا کیلئے ایک ہے۔ دوسرا حدیث پاک کا مفہوم کہ مسلمان وہ ہو جو اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی دوسرے بھائی کیلئے پسند کرتا ہے ۔ دوسری حدیث میں آتا ہے کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں۔ اگر جسم کے کسی ایک حصے میں درد ہو تو سارا جسم بے قرار رہتا ہے ۔
لہذا طالبان اگر حکومت کرنا چاہتے بھی ہیں تو ان کے جائز ہونے کا ایک ہی راستہ ہے کہ اسلحہ پھینک دیں ، اپنا مسلح ملیشا تحلیل کردیں یا ریاست کے حوالے کریں اور عوامی رائے کو مقدم سمجھتے ہوئے جمہوریت اور ووٹ کو تسلیم کریں خود کو ایک non state actors مسلح جھتہ کی بجائے ایک غیر مسلح پر امن سیاسی جماعت کے طور پر ریاست کے الیکشن کمیشن کے ساتھ خود کو رجسٹر کریں اور انتخابات کو اقتدار تک پہنچنے کا واحد ذریعہ تسلیم کریں۔ قومی پرچم ، قومی ترانہ ، قومی شناختی علامات اور باقی تمام تر قومی اساس کو بدلنے سے گریز کریں ۔ اگر نہیں تو وہ ناجائز ہیں ، جنگجوں ہیں ، ناقابل قبول ہیں۔