حامد میر نے کہا کہ میں نے ان کو بتایا کہ جب آپ وزیر اعظم تھے تو ہمارے کچھ صحافی ساتھیوں کو اغوا کر کے ان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا تھا تو انہوں نے ان معاملات پر لاتعلقی کا اظہار کیا جس پر مجھے بڑی حیرانی ہوئی، میں نے انہیں تفصیلات بتائیں اور پھر مجھے اس سے بھی زیادہ حیرانی اس وقت ہوئی جب میں نے ابصار عالم کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا اس کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ میں نے کہا انہیں گولی ماری گئی تھی، انہوں نے کہا اچھا! اس کو گولی مار دی تھی تو میں نے کہا اچھا! آپ وزیراعظم تھے اور آپ کو نہیں پتہ تھا کہ اسلام آباد شہر میں ابصار عالم کو گولی مار دی گئی، بہر حال پھر میں نے ان کو تفصیل بتائی، اسد طور کے واقعے کی تفصیل بھی بتائی کہ ان کے گھر میں گھس کر ان پر تشدد کیا گیا۔
جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے حامد میر کا کہنا تھا کل عمران خان سے تفصیلی گفتگو ہوئی جس میں انہوں نے بہت سی پرانی باتیں کیں، ان کے ساتھ ہوئی گفتگو کی کچھ چیزیں عوام کے سامنے نہیں لا سکتا البتہ مجھے اس ملاقات سے تاثر یہی ملا کہ عمران خان کچھ معاملات پر سوچ رہے ہیں اور میرے ساتھ جو ملاقات تھی اس سے پہلے ان کی ایک بڑی اہم میٹنگ ہوئی تھی جس میں اسد عمر ، پرویز خٹک، شاہ محمود قریشی اور فواد چوہدری بھی موجود تھے، بعد میں مجھے پتہ چلا کہ اس میٹنگ میں ان معاملات پر بات ہوئی تھی کہ اداروں کے ساتھ محاذ آرائی سے گریز کرنا چاہیے اور پھر جب میرے ساتھ ان کی بات ہوئی تو اس میں بھی یہ ایشو زیر بحث آیا، اس معاملے پر عمران خان نے مجھے بیک گراؤنڈ بتایا کہ ان کے مسئلے کہاں پر شروع ہوئے تھے۔
حامد میر نے بتایا کہ عمران خان نے تین چار واقعات بتائے لیکن مجموعی طور پر مجھے لگ رہا تھا کہ وہ ہر طرح کی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں، اگر ان کے ساتھ لڑائی کی جائے گی ان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی جائے گی تو اس کے لیے بھی ان کے پاس لائحہ عمل ہے اور اگر کوئی بات چیت کا راستہ اختیار کرنے کی کوشش کرے گا تو اس کے لیے بھی ان کے پاس اپنی شرائط موجود ہیں، بظاہر انہوں نے تاثر مجھے یہی دیا کہ وہ لڑائی کے لیے بھی تیار ہیں اور انتخابات کی خاطر بات چیت کے لیے بھی تیار ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ عمران خان نے ایک ایشو پر میرے ساتھ کافی گفتگو کی ہے اور وہ تھا ٹیکنیکل ناک آؤٹ کا کیونکہ ان کا خیال ہے کہ شہباز گل کے ذریعے کوشش کی گئی کہ ان کے خلاف کوئی بیان لیا جائے اور اس معاملے پر وہ مجھے کافی رنجیدہ اور غصے میں بھی نظر آئے، ان کے پاس شہباز گل کے معاملے پر کچھ ایسی معلومات تھیں جو انہوں نے ابھی تک شیئر بھی نہیں کیں، شاید ان کے پاس اس حوالے سے کافی تفصیلات ہیں اسی وجہ سے وہ بار بار یہی کہہ رہے تھے کہ مجھے نیچا دکھانے کے لیے اور گرانے کے لیے انہوں نے شہباز گل پر ٹارچر کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان ان تمام واقعات سے لاتعلقی کا اعلان کر رہے تھے تو میں نے ان کو یہ کہا کہ آپ چیف ایگزیکٹو تھے تو جوابدہ تو آپ ہی ہیں لیکن جب وہ بار بار شہباز گل کا معاملہ لیکر آتے تو کہتے کہ مجھے پتہ ہے کہ یہ کون کروا رہا ہے اور یہ مجھے بلیک میل نہیں کر سکیں گے، یہ مجھے پریشر نہیں دے سکیں گے، مجھے لگا کہ ذہنی طور پر وہ تیار ہیں اور ان کو پتہ ہے کہ ان کو نااہل کر دیا جائے گا۔
حامد میر کا کہنا تھا جب میں نے ان کو کہا کہ اگر ماضی میں کچھ سیاستدانوں کے ساتھ اسی قسم کے واقعات ہوئے اور انہیں نااہل کیا جا سکتا ہے تو آپ کو نہیں کیا جا سکتا؟ جس پر انہوں نے کہاکہ ان کے اور میرے کیس میں فرق ہے، ان پر کرپشن کا الزام تھا میرے اوپر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے، مجھے جس چیز پر بہت زیادہ حیرانی ہوئی کہ توہین عدالت والے معاملے کو وہ بہت ہلکا لے رہے تھے، میرا خیال ہے کہ اس معاملے پر انہوں نے وکلا کے ساتھ تفصیل سے ابھی تک صلاح مشہورہ نہیں کیا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عمران خان قائل ہیں کہ کہیں نا کہیں ان کے خلاف فیصلہ کیا جا چکا ہے، انہیں ہر قیمت پر نااہل بھی کرنا ہے اور پھر لامحالہ ان کو گرفتار کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی، اس وقت وہ ایک سیاسی نقطہ نظر سے صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں، آپ کو یاد ہوگا کہ پہلے بھی سپریم کورٹ میں توہین عدالت کے کیس میں وہ معافی مانگ چکے ہیں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس دفعہ وہ فوری طور پر معافی مانگنے کے لیے کیوں تیار نہیں ہیں تو شاید ان کے ساتھ گفتگو سے میں نے یہ اندازہ لگا یا کیونکہ ان کو پتہ ہے کہ فیصلہ تو پہلے ہی کیا جا چکا ہے اور میں دوبارہ کہوں گا کہ یہ ان کا خیال ہے میرا خیال نہیں ہے تو ان کو پھر مشورہ بھی ایسا ہی دیا گیا ہے کہ پھر آپ پہلے اپنا دفاع کر لیں، کوئی ٹیکنیکل طریقے سے دیکھ لیں کہ عدالت کا موڈ کیا ہے تو ان کا یہ خیال ہے کہ اگر فیصلہ پہلے ہی کر لیا گیا ہے تو مجھے معافی مانگنے کی کیا ضرورت ہے، پھر میں عوام میں جاکر کیا کہوں گا تو شاید ان کے ذہن میں یہ بات ہے، اور ایک بات شاید ان کے ذہن میں یہ بھی ہے میں نہ تو نواز شریف ہوں اور نہ میں یوسف رضا گیلانی ہوں، اگر میرے خلاف کوئی ایکشن لیا گیا یا مجھے نااہل کیا گیا یا مجھے گرفتار کیا گیا تو اسلام آباد پر خیبر پختونخوا سے بھی سیاسی یلغار ہوگی اور پنجاب سے بھی سیاسی یلغار ہوگی، شہباز شریف کی حکومت اور رانا ثنا اللہ کی پولیس اور دیگر ادارے ان کی سیاسی طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔
حامد میر کا کہنا تھا کہ دیکھیے اب اگلے دنوں میں کیا ہوتا ہے لیکن میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ ان کو عدالت کے ساتھ تصادم نہیں کرنا چاہیے، ان کو معافی مانگنی چاہیے لیکن وہ جو بھی حکمت عملی بنا رہے ہیں وہ ایک سیاسی حکمت عملی ہے وہ قانونی حکمت عملی نہیں ہے۔