وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ نے ڈان نیوز کے پروگرام لائیو وی عادل میں میزبان عادل شاہزیب سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ اب کی بات نہیں ہے بلکہ جب ہم اپوزیشن میں تھے، اس وقت ایک بریفنگ ہوئی تو اس میں آرمی چیف سے میری ملاقات ہوئی، میں نے ان سے گلہ کیا کہ میرے خلاف جھوٹا مقدمہ بنایا گیا ہے تو انہوں نے بہت واضح طور پر اس بات کو مسترد کیا کہ آرمی کی طرف سے ایسا کوئی مقدمہ ان پر بنایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب میں ضمانت پر رہا ہوا تھا تو آرمی چیف کی طرف سے مجھے ایک صاحب ملے تھے انہوں نے مجھے کہا تھا کہ آپ درخواست دیں ہم اس کے اوپر اپنی کوئی انکوائری کریں گے۔ رانا ثناءاللہ نے کہا کہ میں نے آرمی چیف کو بھی درخواست دی اور چیف جسٹس آف پاکستان کو بھی درخواست دی، میرا خیال ہے کہ انہوں نے کوئی انکوائری کی ہوگی اور اسی انکوائری کی بنیاد پر ہی انہوں نے کہا کہ یہ مقدمہ غلط ہے۔
رانا ثناءاللہ نے کہا کہ آرمی چیف نے اس بات کی کھل کر تردید کی کہ ان کی طرف سے مجھ پر کوئی مقدمہ بنایا گیا تاہم یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ عمران خان ہمارے خلاف جھوٹے اور جعلی مقدمات بنانے کیلئے ااے این ایف، ایف آئی اے اور باقی اداروں کے سربراہان کو مجبور کرتا رہا تاکہ ہم پر مقدمات بنائے جائیں۔ انہوں نے کہا عمران خان نے نیب چئیرمین کی ویڈیو لیک کروائی تاکہ وہ نیب کو مجبور کر سکے کہ وہ ہمارے خلاف کیسز بنائے۔
قبل ازیں وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرے پاس ثبوت ہیں کہ میرے خلاف کیس کے لیے ہیروئن عمران خان اور شہزاد اکبر نے فراہم کی، جب اسلام آباد پولیس نے میرے خلاف کارروائی کرنے سے انکار کیا تو اے این ایف کو استعمال کیا گیا۔
خیال رہے کہ پی ٹی آئی رہنما شہریار آفریدی نے گزشتہ ہفتے ایک بیان میں کہا ہے کہ رانا ثنا اللہ پر مقدمہ میں نے نہیں اے این ایف نے بنایا تھا۔ شہریار آفریدی نے کہا کہ اے این ایف کے افسران نے قسمیں کھا کر انہیں بتایا تھا کہ رانا ثناءاللہ سے منشیات برآمد ہوئی ہیں اس لئے میں نے ان کی باتوں پر یقین کر لیا۔
خیال رہے رانا ثنا اللہ کو انسداد منشیات فورس نے یکم جولائی 2019 کو گرفتار کیا تھا۔ اے این ایف نے رانا ثنا اللہ کو پنجاب کے علاقے سیکھکی کے نزدیک اسلام آباد-لاہور موٹروے سے گرفتار کیا تھا۔ ترجمان اے این ایف ریاض سومرو نے گرفتاری کے حوالے سے بتایا تھا کہ رانا ثنااللہ کی گاڑی سے منشیات برآمد ہوئیں، جس پر انہیں گرفتار کیا گیا۔
رانا ثناءاللہ کی گرفتاری پر پہ در پہ پریس کانفرنسز کرتے ہوئے اس وقت کے وزیر شہریار آفریدی نے جذباتی انداز اپنایا اور کہا کہ رانا ثناءاللہ کے خلاف تمام ثبوت موجود ہیں، وہ بار بار دہراتے رہے کہ ' میں نے جان اللہ کو دینی ہے' اسی لئے ان پر کوئی جھوٹا مقدمہ نہیں بنایا تاہم اب انہوں نے اس کیس پر مکمل خاموشی اختیار کر لی اور صرف یہ کہہ کر جان چھڑائی کہ انہیں اے این ایف کے لوگوں نے بتایا تھا۔
رانا ثناء اللہ کو سی این ایس ایکٹ 97 "منشیات سمگلنگ" کے سیکشن 9 کے تحت یکم جولائی 2019 سے 26 دسمبر 2019 تک ڈیتھ سیل اور قید تنہائی میں رکھا گیا۔ ایف آئی آر کے مطابق ان پر الزام تھا کہ وہ 21 کلو گرام ہیروئن اسمگل کر رہا تھے تاہم عدالتی چالان میں ہیروئن کی مقدار 15 کلو گرام لکھی گئی۔ جبکہ انہیں 90 دن سے زائد ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا گیا تھا۔
کیس انتہائی کمزور اور ثبوتوں کی عدم فراہمی کے باعث نے بالآخر لاہور ہائی کورٹ نے منشیات برآمدگی کیس میں رانا ثنا اللہ کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دیا۔
یاد رہے کہ چند روز پہلے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری نے رانا ثنااللہ کے خلاف کیس کو غلط قرار دیا تھا۔ ایکسپریس نیوز کے پروگرام میں جاوید چوہدری کو دیئے گئے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ رانا ثنااللہ کے ساتھ زیادتی ہوئی ان پر کیس نہیں بننا چاہئے تھا۔ انہوں نے کہا کہ رانا ثنااللہ کے اوپر کیس تحریک انصاف نے نہیں بنایا بلکہ کسی اور نے بنایا جس کے بارے میں وہ جانتے ہیں، شہریار آفریدی نے جو کیا وہ غلط تھا۔
پی ٹی آئی رہنما فیصل واوڈا نے بھی ایک لائیو پروگرام میں کہا تھا کہ جب رانا ثناءاللہ کے خلاف کیس بنایا جارہا تھا تو کابینہ اجلاس میں میں نے اور فواد چوہدری نے اس کی مخالفت کی تھی کہ ایسے کیسز نہیں بنانے چاہیئں۔