السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
چند دن پہلے نیب کورٹ سے باہر نکل کر آپ نے شعر پڑھا
جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے
یوں محسوس ہوا کہ آپ ہم سب سے مخاطب ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ تم سب اس ملک کیلئے میری قربانیوں کا اعتراف بیشک مت کرو لیکن میں پھر بھی اس ملک کیلئے اپنا کردار ادا کرتا رہوں گا۔ آپ کے عزم کیساتھ کہیں نہ کہیں وہ خلِش ضرور محسوس ہوئی جو آپ جیسے محسن کو ہم جیسی محسن کُش قوم سے ہو سکتی ہے۔
آج بس آپ کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ بیشک تمام عمر دائروں کا سفر کرتے گزری لیکن پچھلی تین دہائیوں میں صرف آپ ہی ہمیشہ تبدیلی کی ہوا بن کر آئے۔
آپ نے ہمیں خواب دکھائے، اور نہ صرف خواب دکھائے بلکہ اللہ کے فضل و کرم سے آپ کو جب بھی موقع ملا آپ نے ان خوابوں میں رنگ بھی بھرے۔
پہلی موٹر وے بنانے کا عزم کیا تو مخالفین نے ڈٹ کے مخالفت کی، مذاق اُڑایا مگر میرے اللہ نے وہ دن بھی دکھایا جب آپ نے موٹر وے کا افتتاح کیا۔
ملکی دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے کا عہد کیا تو تمام عالم کی مخالفت مول لے لی، اپنی دو تہائی اکثریت کی قربانی دے دی، مگر ایٹمی دھماکے کر کے ہی دم لیا۔
جنابِ عالی، 2013 میں مانسہرہ جلسے میں آپ نے پاک چائنہ راہداری کا جو نقشہ پیش کیا تو ہم سب بھی اسے سمجھنے سے قاصر تھے کہ شاید ہماری زندگیوں میں ایسا کبھی ممکن نہ ہو۔ مخالفین نے اس کا بھی ٹھٹھہ اُڑایا لیکن چشمِ فلک نے دیکھا کہ سی پیک پاکستانی تاریخ کی سب سے بڑی سرمایہ کاری بن کر ابھرا۔
تمہید لمبی ہوتی جا رہی ہے مگر کہنا فقط یہ ہے کہ ہماری ترقی کا سفر آسان کرنے کی سعی بس آپ نے ہی کی۔ آپ نے ہمارا ہر خواب ممکن کر دکھایا، یہ جو آخری خواب آپ نے دکھایا ہے، یہ بھی آپ نے ہی ممکن کر کے دکھانا ہے۔ ہم سب اس بات کے گواہ ہیں کہ آپ نے اپنے حصے کا کام ضرور کیا۔ آپ جیسے رہنما کی رہنمائی میسر رہے تو ہمارا مقدر ایک انصاف پسند معاشرہ ہی ہے جس کی باگ ڈور اس کے عوام کے ہاتھ میں ہو۔ آج یا کل، کل یا پرسوں جب بھی اس خواب نے حقیقت کا روپ دھارا، اس میں آپ کی قربانیوں کا ذکر ضرور ہو گا۔
آج جب آپ کی سالگرہ کا دن ہے، تو آپ تب بھی ہمارے لئے سختیاں برداشت کر رہے ہیں۔ آپکی استقامت اور لگن ہی ہماری کامیابی کی نشانی ہے۔
ہٹا دیں گے ہر اِک سنگِ گراں کو اپنے رستے سے
نمایاں اپنی شانِ استقامت کر کے چھوڑیں گے