جعلی خبروں، غیر تصدیق شدہ رپورٹنگ اور ختم ہوتی ہوئی اخلاقیات کے اس دور میں، محمد ضیاالدین کا صحافتی کریئر جائزہ لینے کے قابل ہے، جو پاکستان کی صحافت کا سب سے معتبر نام ہیں۔
ملک کے تقریباً تمام بڑے اخبارات - دی مسلم، دی نیوز، ڈان، دی ایکسپریس ٹریبیون میں تقریباً ساٹھ سال کام کرتے ہوئے ضیاالدین صاحب نے تقریباً ناممکن تعداد میں ذمہ داریوں کو سنبھالا ہے: جن میں وسیع کریئر ہونے اور اپنے زمانے کے زورآوروں، جیسے کہ مُشرّف کا سامنا کرنے کے باوجود ایک داغ سے پاک ریکارڈ برقرار رکھنا شامل ہیں۔
ضیاالدین صاحب کی جدوجہد صرف آمروں کے ساتھ نہیں تھی۔ اُنھوں نے غیر سنجیدہ سینیئرز اور میڈیا کے کمزور مالکان کا بھی سامنا کیا۔ بہرحال، اُن کی بیٹ رپورٹنگ کے دن ہماری سیاسی تاریخ کے کچھ تاریک ترین اور انتہائی ہنگامہ خیز دور کے دوران بے خوف نڈر ایڈیٹرز کی کہانیوں سے بھی بھرے پڑے ہیں۔ ان میں سے کچھ کہانیوں کو احاطہ تحریر میں لانے کی کوشش کرتے ہوئے، میں امید کرتا ہوں کہ پاکستان کے صحافیوں کی اگلی نسل کو یہ اُمید رہے کہ وہ بھی survive کر سکتے ہیں۔
کمال صدیقی صحافی ہیں۔ وہ ایکسپریس ٹریبیون کے ایڈیٹر کے طور پر کام کر چکے ہیں اور اس وقت IBA کے سینٹر فار ایکسیلنس ان جرنلزم کے ڈائریکٹر ہیں۔
ایڈیٹنگ: ماہم مہر
ڈیویلپمنٹ: فیضان عباسی
آرکائیو تصاویر اور DAWN آرکائیوز کے لئے ڈاکٹر غلام نبی قاضی کے شکریہ کے ساتھ۔
بچپن اور خاندان: ہندوستان اور مشرقی پاکستان
محمد ضیاالدین 1938 میں مدراس (موجودہ چنئی) میں پیدا ہوئے۔ اُن کی والدہ کا تعلق بنگلور سے تھا اور ان کے والد ظہیرالدین خان ہاکی کے زبردست کھلاڑی تھے جو قومی ہندوستانی ہاکی ٹیم میں جگہ بناتے بناتے رہ گئے تھے۔
یہ خاندان 1948 تک حیدرآباد دکن میں محبوب آباد نامی ایک دور دراز قصبے میں رہا جب اُن کے والد ماچس کی فیکٹری میں بطور منیجر کام کر رہے تھے۔ تاہم، تقسیم کے بعد حیدرآباد کی حیثیت غیر یقینی ہونے کی وجہ سے خاندان کی قسمت میں اتار چڑھاؤ آیا۔ 1948 میں جب حیدرآباد ہندوستانی افواج کے قبضے میں آ گیا تو ماچس کی فیکٹری بند ہو گئی۔ اس وقت ضیاالدین صاحب بمشکل چوتھی کلاس میں پڑھ رہے تھے۔
اُن کا خاندان مدراس واپس آ گیا، اور پھر 1952 میں مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکہ میں منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ ظہیرالدین نے ایک کزن کے ساتھ، جو اپنا خاندانی چمڑے کا کاروبار چلا رہے تھے، شراکت قائم کی اور بالآخر ایک جزیرے پر اپنی ٹینری قائم کی جس کے مشرق میں بوڑھی گنگا دریا بہتا ہے۔ بدقسمتی سے فیکٹری تقریباً ہر سال سیلاب میں بہہ جاتی تھی۔ لیکن ڈھاکہ میں صرف یہی ایک مسئلہ نہیں تھا۔
وہاں اس بات پر بے چینی میں اضافہ ہو رہا تھا کہ مشرقی پاکستان کی طرف ہجرت کرنے والے افراد مقامی لوگوں کے ساتھ حکمرانوں کی طرح برتاؤ کر رہے تھے۔ یہ غیر بنگالیوں کے لئے ایک مشکل وقت تھا اور اگرچہ وہاں کوئی کھلی جارحیت نہیں تھی، لیکن مقامی لوگوں میں غیر مقامی لوگوں کے خلاف ناراضگی تھی۔ مشرقی پاکستان میں زیادہ تر اہم سرکاری عہدوں پر مہاجرین، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق ہندوستان، بہار سے تھا اور مغربی پاکستان سے آئے افراد براجمان تھے۔ یہاں تک کہ بڑے کاروبار بھی غیر بنگالیوں کے ہاتھ میں تھے۔ اِن حالات نے 1954 کی زبان کی تحریک کو جنم دیا جس کا مطالبہ تھا کہ بنگالی زبان کو پاکستان میں سرکاری استعمال کے لئے تسلیم کیا جائے۔
1958 میں، جب ضیاالدین صاحب ڈھاکہ یونیورسٹی میں فارمیسی میں بی ایس سی کی تعلیم حاصل کر رہے تھے اور ساتھ ساتھ کرکٹ ٹیم کی کوچنگ کر رہے تھے، انہیں ایک کیمپ کے لئے کراچی جانے کا موقع ملا۔ یہ پہلا موقع تھا جب وہ مغربی پاکستان کو دیکھ رہے تھے۔ وہ کراچی کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’اُن دنوں یہ بہت مختلف شہر تھا‘‘۔ "اورینٹ ایئرویز میں اُڑتے ہوئے، جب ہم (کراچی) لینڈ کر رہے تھے، میں نے ویران زمین کا ایک وسیع حصہ دیکھا جہاں بڑی تعداد میں تارکین وطن جھگیوں میں رہ رہے تھے۔" پی آئی بی کالونی سے، وہ یاد کرتے ہیں، آپ صدر تک تمام راستے دیکھ سکتے تھے۔ ملیر میں زیادہ تر کھیتی باڑی تھی جب کہ ناظم آباد میں زندگی کے ابتدائی آثار دکھ رہے تھے۔ کیماڑی سے آپ شہر کے مختلف حصوں کے لئے ٹرام پکڑ سکتے تھے۔
پاکستان بھر سے کوچنگ کیمپ میں شرکت کے لئے آنے والے نوجوانوں کے لئے نیشنل سٹیڈیم میں کیمپ لگایا گیا تھا۔ یہیں پر ضیاالدین صاحب نے تمام ٹاپ کرکٹرز کو ایکشن میں دیکھا: حنیف (محمد)، وزیر، مشتاق (محمد) اور یہاں تک کہ صادق (محمد)، جو ابھی نوعمری میں ہی ٹیبل ٹینس پریکٹس کرنے آتے تھے۔ پاکستان کے اوپننگ بلے باز علیم الدین ان کے بیٹنگ کوچ تھے۔ ماسٹر عزیز، جنہوں نے حنیف (محمد) کی کوچنگ کی تھی، بھی کیمپ میں باقاعدگی سے آتے تھے۔
ضیاالدین صاحب کے ڈھاکہ واپس آنے کے فوراً بعد خاندان نے اپنے والد کی خراب صحت اور بار بار آنے والے سیلاب سے ٹینری میں ہونے والے نقصانات کی وجہ سے کراچی میں دوبارہ آباد ہونے کا فیصلہ کیا۔ اور یوں، 1960 میں، جب وہ 21 سال کے تھے، کراچی چلے گئے۔
کراچی اور کراچی یونیورسٹی کے سال
اُن دنوں کام کی تلاش ایک چیلنج تھا لیکن ضیاالدین صاحب ایک دوا ساز کمپنی میں میڈیکل نمائندے کی نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس وقت کراچی میں دوا سازی کے چند کارخانے تھے لیکن یہ صنعت ابھی اپنے ابتدائی دور میں تھی۔
یہ وہ کام نہیں تھا جس سے وہ مطمئن ہوتے اور یوں 1963 میں اُنھوں نے اپنے لکھنے کے شوق کی تکمیل کے لئے جامعہ کراچی میں صحافت میں داخلہ لینے کا فیصلہ کیا۔ اُن کی جرنلزم کی تعلیم نے اُنھیں اعتماد فراہم کیا کہ اُنھوں نے چند سالوں میں ہی میڈیکل کمپنی کے نمائندے کی حیثیت سے سبکدوش ہو کر 1966 میں PPI (اُس وقت PPA) میںCub رپورٹر کے طور پر صحافت میں اپنی پہلی نوکری شروع کی۔ اس دوران اُنھوں نے میڈیکل نمائندے کی حیثیت سے اپنی ملازمت جاری رکھی کیونکہ دل کا شدید دورہ پڑنے کے بعد ان کے والد کو اپنا کاروبار بند کرنا پڑا تھا۔ ضیاالدین صاحب اپنے خاندان کے لئے کمانے والے بن گئے تھے۔
کراچی یونیورسٹی کے دو سال اُن کے لئے مشکل تھے۔ صبح آٹھ بجے کے قریب وہ اپنی کمپنی (CH Borhringer)جہاں وہ میڈیکل نمائندے کے طور پر کام کرتے تھے، کے دفتر میں ہوتے تھے جو قمر ہاؤس (موجودہ EFU بلڈنگ) تھا۔ لیکن اُس کے بعد وہ تیزی سے شہر کے دوسرے کونے پر موجود کراچی یونیورسٹی، دو بسوں کو تبدیل کرتے ہوئے پہنچتے تھے۔ جیسے ہی وہ تیز تیز قدم اُٹھاتے ہوئے کلاس روم کی طرف جاتے اُن کے قدموں کی آواز سے کلاس رومز میں موجود خاموشی میں خلل واقع ہوتا لیکن یہ ساتھ ہی اُن کی آمد کا اعلان بھی ہوتا جسے انگریزی کے اُستاد رحمان صاحب دھیمی آواز میں کہتے: "Here comes His Royal Highness"۔
ضیاالدین صاحب نے بتایا، "میں نے اپنی ملازمت کو شعبہ صحافت کے عملے اور ساتھیوں سے خفیہ رکھا ہوا تھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ سب یہ سوچتے تھے کہ میں ایک متموّل خاندان کا بچہ ہوں اور یونیورسٹی میں صرف وقت گزاری کے لئے جا رہا ہوں۔"
کراچی یونیورسٹی میں اپنے دوسرے سال کے دوران انہوں نے روزنامہ ڈان کے کیمپس رپورٹر کے طور پر بھی کام کیا۔ وہ اُس وقت کے ڈان کے سٹی ایڈیٹر ایچ بی کھوکھر کو رپورٹ کرتے تھے۔ تاہم، اُن کی یہ نوکری تنخواہ والی نہیں تھی اور ضیاالدین صاحب کو شک تھا کہ اس کا تعلق کھوکر صاحب سے تھا۔ (شاید ایڈیٹر نے انہیں باضابطہ طور پر اخبار میں اپائنٹ نہیں کیا تھا)۔ بہر حال، اس نے یہ ان کے دماغ مین یہ تاثر پیدا کیا کہ کھوکھر صاحب میں پیشہ ورانہ اخلاقیات کا فقدان ہے اور یہ کہ وہ ایک سفّاک آدمی ہیں۔
چونکہ 'سرخ سویرا' کے پروفیسر کرار حسین کے صاحبزادے مرحوم جوہر حسین نے شعبہ صحافت کے بانی سربراہ شریف المجاہد صاحب سے ان کی سفارش کی تھی، اس لئے ضیاالدین کو ان کے اساتذہ بائیں بازو کا سمجھتے تھے۔ "آدھے سرخے اور رائلٹی کے عجیب امتزاج پر مبنی میری بدنامی مجھے بہت مہنگی پڑی کیونکہ میرے پہلے سال کے گریڈ بہت کم تھے۔" آخر میں اُن کی بچت اس طرح سے ہوئی کہ اُن کے بہترین دیے ہوئے امتحانی پرچے، چیکنگ اور گریڈنگ کے لئے دوسری یونیورسٹیوں میں بھیجے گئے۔
طلبہ کی اشاعتیں شروع کرنا
یونیورسٹی چھوڑنے سے پہلے، ضیاالدین صاحب نے ویتنام کی جنگ سے متاثر ہوطکر دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں 1960 کی دہائی کی نئی طالب علم طاقت جو کچھ کر رہی تھی اس میں اپنا چھوٹا سا حصہ ڈالا۔ انہوں نے وائس آف دی سٹوڈنٹس کے نام سے ایک خفیہ رسالہ نکالا، جسے اختر ایم فاروقی نے ایڈٹ کیا، اُن کا تعلق بھی شعبہ صحافت تھا۔ اس پر جامعہ کراچی کے پراکٹر میجر آفتاب سخت غصے میں تھے۔
یہ جانتے ہوئے کہ انتظامیہ کیا رد عمل ظاہر کرے گی، دونوں نوجوانوں نے ہوشیاری سے اپنے نام رسالے کے صفحات پر نہیں ظاہر کیے۔ لیکن اس میں اکنامکس ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھنے والے دوستوں، عبدالحمید چھاپرا اور راشد پٹیل کے نام اُن کی اپنی درخواست پر لیے گئے، جنہوں نے اپنے سیاسی عزائم کی بنا پر اعلانیہ طور پر اس منصوبے سے منسلک ہونے کا فائدہ دیکھا۔ درحقیقت یہ رسالہ چھاپرا کے خاندانی پرنٹنگ پریس سے شائع ہوتا تھا۔
چھاپرا اور پٹیل دونوں کو ایک سال پڑھائی چھوڑنے کی سزا کا سامنا کرنا پڑا۔ چھاپرا نے جامعہ کراچی کے بعد روزنامہ جنگ میں شمولیت اختیار کر لی اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کی قیادت کرتے ہوئے ٹریڈ یونین محاذ پر سرگرم ہو گئے۔ ایک موقع پر اُنھوں نے اصغر خان کی تحریکِ استقلال کے ٹکٹ پر انتخابات میں بھی حصّہ لیا۔ راشد پٹیل لیکچرار بنے اور تعلیمی سیاست میں حصّہ لیا لیکن جوانی میں انتقال کر گئے۔
ضیاالدین صاحب کو وائس آف دی سٹوڈنٹس کا دوسرا ایڈیشن تیار کرنے میں پندرہ دن لگے لیکن اس بار اس کا ماسٹ ہیڈ خالی چھوڑ دیا گیا۔ بالآخر وہ اس رسالے کی اشاعت بند کرنے پر مجبور ہو گئے جب اُن کے اُستاد رحمان صاحب نے اُن کے اور اختر فاروقی کے انداز کو پہچان کر اُنھیں اپنے اقدام سے باز رہنے کی وارننگ دی۔
پاکستان سپاٹ لائٹ کا ذوالفقار علی بھٹّو کا انٹرویو
1966 میں صحافت میں ماسٹرز ڈگری مکمل کرنے کے فوراً بعد، ضیاالدین صاحب نے پاکستان سپاٹ لائٹ کے نام سے ایک ماہانہ نیوز میگزین کا آغاز کیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جس شخص (یعنی ضیا عبّاس) کو انہوں نے طلبہ یونین کے صدر کے عہدے سے ہٹانے کی کوشش کی تھی، وہی اس کے پبلشر تھے۔ وہ مسلم لیگی آدمی تھے لیکن اُنھوں نے ضیاالدین صاحب اور ان کی ٹیم کو مکمل ادارتی خودمختاری دی۔
سرور نقوی، جو بعد میں دفتر خارجہ میں شامل ہوئے اور اہم دارالحکومتوں میں سفیر کے طور پر خدمات انجام دینے کے بعد ریٹائر ہو گئے، اس کے اسسٹنٹ ایڈیٹر بن گئے۔ ان کے ساتھ شعبہ صحافت سے نئے فارغ التحصیل ہونے والے بہت سے لوگ شامل ہوئے (اختر فاروقی، وراثت حسنین، ضمیر عالم، مہر کمال، روحی ذکا اللہ اور گیتی آرا)۔
پاکستان سپاٹ لائٹ کے پہلے شمارے میں ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں ایک جامع کور سٹوری تھی جو ابھی ابھی ایوب کابینہ چھوڑ کر اپنی پارٹی بنانے کی بات کر رہے تھے۔ تاشقند اعلامیہ، جس پر سؤویت یونین نے 1965 میں 17 روزہ جنگ کے بعد پاکستان اور بھارت کو دستخط کرنے میں مدد کی تھی اور جو تعطّل پر ختم ہو گئی تھی، پر صدر ایوب خان کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹّو کے شدید اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔ یہ بھٹو کا ایک متاثر کن پروفائل تھا جس کے سرورق پر ان کی کلفٹن کی 70 رہائش گاہ کے لان میں ایک ایزی چیئر پر فکر مند موڈ میں تصویر لی گئی تھی۔
تاہم، تقریباً چار شماروں کے بعد پبلشر کے پاس فنڈز ختم ہو گئے اور انہوں نے پرنٹنگ روک دی۔
پاکستان پریس ایجنسی، جاوید بخاری اور ایوب خان
ضیاالدین صاحب نے اس وقت پاکستان کی واحد نجی نیوز وائر پاکستان پریس ایجنسی میں شمولیت اختیار کی جس کا نام بعد میں پاکستان پریس انٹرنیشنل رکھ دیا گیا۔ اُنھیں ایک عہدے کی پیشکش کی گئی تھی جو کہ اُن کے دوست جوہر حسین کو کسی بناوٹی بہانے سے وہاں سے ہتانے کے لئے کیا گیا تھا۔ جوہر نے ایک سال قبل ماسٹرز مکمل کیا تھا اور وہ پی پی اے میں پروبیشن پر کام کر رہے تھے۔ یہ ملازمت اُن کی پروبیشنری مدت ختم ہونے کے بعد اُن کے پاس چلی جاتی اور انھیں لیبر قوانین کے تحت مستقل ملازم کی تمام مراعات کے لئے اہل ہونے کا حق حاصل ہوتا۔ یہ تنظیم پر ایک 'ناقابل قبول' اضافی مالی بوجھ ہوتا اور اس کے مقابلے میں جوہر حسین کو نوکری سے نکالنا اور خالی اسامی کے لئے نئے ضیاالدین کو بھرتی کرنا آسان عمل تھا۔ ان دنوں اس پیشے میں ملازمت کے حالات ایسے تھے۔ تنخواہ صرف 75 روپے تھی۔
پی پی اے کے بیورو چیف جاوید بخاری تھے، جو بالآخر ڈان کے اکنامک اینڈ بزنس ریویو کے انچارج ایڈیٹر کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ وائر ایجنسی کی قیادت مرحوم اشفاق بخاری اور انور منصوری کر رہے تھے۔ انور منصوری جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے پاکستان میں چیف کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ کسی بھی غیر سنجیدگی کو نہ برداشت کرنے والے جاوید بخاری ایک سخت گیر ماسٹر اور self-taught اکنامک صحافی تھے۔ دوسری طرف اشفاق ایک پر سکون پیشہ ور تھے جن کا دل غریبوں اور غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والوں کے لئے دھڑکتا تھا۔
یہ بے ترتیب اوقات تھے۔ اگست 1970 تک وہاں ہلچل مچ گئی۔ اخباری کارکنوں نے غیر معینہ مدت کی ہڑتال کر دی، مالکان کی جانب سے کم از کم تنخواہ مقرر کرنے والے ویج بورڈ ایوارڈ سے انکار کے خلاف احتجاج کیا۔ صحافی پہلے ہی 1963 میں ایوب خان کے جاری کردہ پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس (پی پی او) کے خلاف احتجاج کر رہے تھے اور اخبارات کے مالکان اور صحافیوں کے درمیان لڑائی میں متعدد پیشہ ور افراد اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
پی پی او اپنی انتہائی شکل میں ایک سخت قانون تھا۔ مختصراً یہ کہ اگر ملک کے کسی دور دراز کونے میں بیٹھے کسی اہلکار کو آپ کی قمیض کا رنگ پسند نہ آیا تو وہ آپ کا پرنٹنگ پریس ضبط کر سکتا ہے، اخبار بند کر سکتا ہے، آپ کو جیل بھیج سکتا ہے اور چابی پھینک سکتا ہے اور قانون آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکے گا۔
پاکستان اکانومسٹ، خان آف قلات کا انٹرویو
جب حالات تبدیل ہو رہے تھے، ضیاالدین 1974 میں PPA سے ہفتہ وار پاکستان اکانومسٹ (بعد میں پاکستان اینڈ گلف اکانومسٹ) میں چلے گئے جہاں ابن الحسن ایڈیٹر تھے۔ حسن کے پاس معیشت، سیاست، خارجہ امور یا کسی سماجی مسئلے پر ایک تجزیاتی تحریر کو اُس کے مصنف کے بنیادی پیغام کو برقرار رکھتے ہوئے مکمل طور پر دوبارہ لکھنے کی غیر معمولی مہارت تھی (وہ اس کو ایڈیٹنگ کہتے تھے)۔ وہ یہ کام اتنی نفاست اور اسلوب سے کرتے کہ مضمون پڑھ کر خوشی ہوتی۔
پاکستان اکانومسٹ میں ضیاالدین صاحب نے خان آف قلات کا انٹرویو کیا۔ ضیاالدین صاحب یاد کرتے ہیں، "جسمانی طور پر ایک بہت بڑی شخصیت، لیکن فکری طور پر ایک عظیم شخص، خان کے ساتھ بات چیت کرنا غیر معمولی طور پر خوشگوار (تجربہ) تھا۔ اُنھوں نے جو کہا وہ کلاسیکی سیاست کا سبق تھا۔ یہ ایک ذہنی مشق تھی جس نے میرے ذہن پر ایک دیرپا نقش چھوڑا۔"
انہوں نے ضیاالدین صاحب کو بلوچستان کی تقسیم سے پہلے کی تاریخ کے بارے میں ایک سرسری تفصیل بیان کی۔ قائداعظم کے ساتھ ان کے تعلقات کے بارے میں بتایا، ایک آزاد پاکستان کے اندر بلوچستان کے بارے میں ان کے وژن پر روشنی ڈالی اور اس وژن کو کس طرح توڑا گیا اس کی وضاحت کی۔ جناح کی موت کے فوراً بعد اگر پاکستان کی مرکزی حکمران اشرافیہ نے آزاد پاکستان میں خان آف قلّات کے بلوچستان کے وژن کے ساتھ یکسر ہم آہنگی کرھی ہوتی تو شاید یہ ملک آنے والے 73 سالوں کے دوران ہونے والے بیشتر سماجی سیاسی دھچکوں سے بچ جاتا۔ اُنھوں نے کہا کہ ’’اگر استعماری سوچ رکھنے والے مرکز نے ان تمام سالوں میں ان پر ظلم نہ کیا ہوتا تو بلوچستان کے لوگ اپنے تمام تر معدنی وسائل اور سفید ریت کے وسیع ساحل کے ساتھ ملک کو تمام مغربی ممالک، بشمول تیل کی دولت سے مالامال خلیجی ممالک سے بہت آگے خوشحالی کی راہ پر گامزن کر چکے ہوتے۔"
وزیر پیداوار رفیع رضا کے ساتھ ضیاالدین صاحب کا انٹرویو بالکل مختلف تھا۔ وزارت پر انٹرویو کے بعد ضیاالدین نے رضا سے وزیر اعظم بھٹو کی قیادت میں حکومت اور ولی خان کی قیادت میں اپوزیشن کے درمیان کشمکش کے بارے میں ان کے خیالات پوچھے۔ رفیع رضا کا مختصر لیکن پیشن گوئیانہ جواب تھا: دونوں کو 90,000 یا اس سے زیادہ POWs کی واپسی سے پہلے کچھ خوش آئند افہام و تفہیم پر آجانا چاہیے، (ان میں سے ایک اچھی تعداد آرمی کے اہلکار، دونوں افسران اور رینکرز ہیں)، جو اس وقت بھارت کے زیر حراست تھے، ورنہ حالات بہت خراب ہونگے۔ اُنھوں نے یہ تاثر دیا کہ اسٹیبلشمنٹ اپنی سیاسی طور پر غالب پوزیشن پر واپس آنے کے لئے انتہائی بے صبری سے صرف اپنی فوجوں کی واپسی کا انتظار کر رہی ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ جیسے ہی فوجیوں کی گھر واپس ہوئی بالکل ایسا ہی ہوا — وزیر اعظم نے بلوچستان میں مینگل حکومت کو علیحدگی کی سازش کے بے جا الزامات کے تحت برطرف کر دیا، جس کے 'ثبوت' اسٹیبلشمنٹ نے ظاہر کیے تھے۔ احتجاجاً وزیر اعلیٰ مفتی محمود کی قیادت میں صوبہ سرحد کی مخلوط حکومت نے استعفا دے دیا، جس کے بعد ملک ایک انتہائی غیر مستحکم سیاسی مرحلے میں داخل ہوا جس کا اختتام اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیاالحق کے ہاتھوں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے، بھٹو کی گرفتاری اور اس کے بعد پھانسی اور آمریت میں توسیع پر ہوا۔ جو گیارہ سال تک جاری رہی۔
ٹی وی اور مارننگ نیوز
وہ ابھی پاکستان اکانومسٹ میں اسسٹنٹ ایڈیٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے، جب ضیاالدین صاحب نے ایک ٹی وی پروگرام The World Tonight کے لئے کرنٹ افیئرز پر ملک کے اعلیٰ انگریزی سکرپٹ رائٹرز کے ایک منتخب گروپ میں شمولیت اختیار کی۔ یہ ایک ہفتہ وار پروگرام ہوا کرتا تھا جسے معروف دانشور، سیاست دان اور ایڈورٹائزنگ جینیئس جاوید جبار پیش کیا کرتے تھے۔ ضیاالدین صاحب نے اس پروگرام کے لئے بہت سے سکرپٹ لکھے لیکن سب سے بہترین سکرپٹ، ان کے مطابق، عالمی آبادی اور سمندر کے قانون پر تھے۔
1976 میں اس وقت کے ایڈیٹر سلطان احمد کی دعوت پر ضیاالدین صاحب نے 'مارننگ نیوز' میں بطور اسسٹنٹ ایڈیٹر شمولیت اختیار کی۔ رفیق جابر، امان اللہ، اختر پیامی (سٹی ایڈیٹر) جیسے سینیئر صحافی ان کے ساتھی تھے۔
ضیاالدین صاحب سلطان احمد کو ایک مشکل ایڈیٹر کے طور پر یاد کرتے ہیں جو ادارتی کوتاہیوں کے لئے اپنے سینئر ترین ساتھیوں کو بھی نہیں بخشتے تھے۔ "میں نے تصادم سے بچنے کے لئے لو پروفائل رکھا" وہ یاد کرتے ہیں۔ جب جنرل ضیاالحق نے جولائی 1979 میں بغاوت کر کے اقتدار سنبھالا تو ملک یکسر بدل گیا۔ حسبِ توقع حکومت نے سلطان احمد کو ہٹا کر SR Ghauri سے تبدیل کر دیا۔ غوری ایک بہترین ایڈیٹر تھے، انتہائی پیشہ وہ اور ایک خیال رکھنے والا انسان تھے۔
غوری کو یہ ملازمت کسی آرمی کنکشن کی وجہ سے نہیں دی گئی تھی، جو ان کے پاس تھا بھی نہیں، بلکہ ان کے اور بھٹو کے درمیان کھلی دشمنی کی وجہ سے دی گئی تھی جو اُن کے درمیان ماہانہ ہیرالڈ کی ایڈیٹنگ کے دوران موجود تھی۔ تاہم غوری اور صاحبانِ اقتدار کے درمیان تعلقات کو ختم ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگی اور وہ ملازمت چھوڑ کر اس پیشے سے مستقل طور پر محروم ہو گئے۔ مارننگ نیوز میں ضیاالدین صاحب کی ذمہ داریوں میں سے ایک اداریہ لکھنا تھا، لیکن آمریت سے سخت نفرت کے پیش نظر انہوں نے سوچا کہ اگر وہ ملازمت میں رہنا چاہتے ہیں تو داخلی حالات پر لکھنے سے گریز کرنا ہی ان کا بہترین انتخاب ہے۔ نیشنل پریس ٹرسٹ، جو مارننگ نیوز کا مالک تھا، راتوں رات معزول سویلین حکومت اور بھٹو مخالف بن گیا اور اس میں اس حد تک تبدیلی آ گئی کہ اس کا کام بھٹو کے خلاف ہر قسم کے حقیقی اور خیالی سکینڈلز کا کھوج لگانا بن گیا۔ ضیاالدین صاحب نے استعفیٰ دینے کا سوچا لیکن ملازمت کا بازار تنگ تھا اور وہ اپنے وقت کے ہاتھوں مجبور تھے۔ انہوں نے غوری صاحب کو یہ بتاتے ہوئے کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں درخواست کی کہ انہیں اداریوں کے لئے صرف غیر ملکی عنوانات تفویض کریں۔ غوری آسانی سے راضی ہو گئے اور ضیاالدین نے اس وقت سے مقامی سیاست سے کنارہ کش ہو کر بین الاقوامی مسائل پر توجہ مرکوز کی۔ اس کے باوجود وہ بیروت میں خانہ جنگی اور امریکیوں کے ادا کردہ کردار پر اداریوں کی ایک سیریز پر مشکل میں پڑ گئے۔
معلوم ہوا کہ ایک ساتھی صحافی نے NPT چیئرمین سے شکایت کی تھی لیکن اُن کے نظریاتی جھکاؤ پر نہیں۔ یہ شکایت اسی سال کراچی پریس کلب کے انتخابات کے دوران کی گئی تھی۔ ضیاالدین کے ہم عصر اور قریبی دوستوں میں سے ایک معروف بائیں بازو کے صحافی اشفاق بخاری انتخابات میں کھڑے تھے۔ جیسا کہ ضیاالدین صاحب نے یاد کرتے ہوئے بتایا، شکایت بخاری کے قریبی لوگوں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش میں کی گئی تھی تاکہ وہ اُن کے لئے مہم چلانے یا انہیں ووٹ دینے سے باز رہیں۔ این پی ٹی کے چیئرمین کو بتایا گیا کہ مارننگ نیوز میں کام کرنے والے ایک "سوویت نواز کمیونسٹ" نے امریکہ کے خلاف انتہائی تنقیدی اداریے لکھے ہیں۔ "یہ رمضان کا پہلا دن تھا اور NPT کے چیئرمین ایک NPT اخبار میں چھپے اس 'سوویت نواز کمیونسٹ' سے ملنے کے لئے دفتر آئے تھے"، ضیاالدین صاحب یاد کرتے ہیں۔ "مجھے ایڈیٹر کے کمرے میں بلایا گیا جہاں دونوں [ان میں سے]، چیئرمین اور ایڈیٹر چائے پی رہے تھے۔" ضیاالدین سے پوچھا گیا کہ کیا وہ بھی کپ پینا پسند کریں گے۔ انہوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ وہ روزہ سے ہیں۔ کچھ مختصرسی گفتگو کے بعد ایڈیٹر نے اُنھیں اپنی نشست پر واپس جانے کو کہا۔
بعد ازاں این پی ٹی چیئرمین کے جانے کے بعد ایڈیٹر نے ضیاالدین صاحب کو واپس بلایا۔ اُنھوں نے دیکھا کہ غوری صاحب اپنی ہنسی روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چہرے پر ایک وسیع مسکراہٹ کے ساتھ غوری صاحب نے طنزیہ انداز میں کہا، "چیئرمین لاہور سے اپنے ٹرسٹ میں چھپے سوویت نواز کمیونسٹ کو برطرف کرنے آئے تھے اور روزہ دار سے ملاقات کے بعد واپس چلے گئے!"
ضیا کے دور میں سنسرشپ
پھر بھی اداریے لکھنے کا مطلب تنازع کو دعوت دینا تھا۔ 1978 میں جب جنرل ضیاالرحمان نے بنگلہ دیش سے مارشل لا ہٹایا تو ضیاالدین صاحب نے ایک اداریہ لکھا جس میں اس اقدام کا خیرمقدم کیا گیا، لیکن پہلے خیر مقدمی جملے کے بعد آمریت کی عمومی تنقید کی گئی، جس کی آسانی سے غلط تشریح کی جا سکتی تھی کہ وہ پاکستان کی حکومت کی بے حسی کے بارے میں ہے۔ بھٹو کے اس وقت کے تازہ ترین مضمون 'اگر مجھے قتل کر دیا گیا' کے چند اقتباسات کو ان کا نام لیے بغیر مضمون میں شامل کیا گیا تھا۔ مرحوم واز الدین، ضیاالدین صاحب کے ایک مخلص دوست تھے جنہوں نے بنگالی ہوتے ہوئے بنگلہ دیش واپس نہ جانے کا انتخاب کیا تھا۔ یہ ریڈیو پاکستان پر کام کرتے تھے اور اُن کا کام تھا کہ وہ دن کے اہم ترین اداریوں کا انتخاب کرتے اور انہیں ہر صبح زبانی طور پر نشر کرتے۔ اُنھوں نے اداریہ کا عنوان دیکھا جس میں ان کی جائے پیدائش کا حوالہ دیا گیا تھا اور اس پر غور کیے بنا پورا متن بغیر وقفہ پڑھ ڈالا۔
اس نے اس وقت کے خوفناک انفارمیشن سیکرٹری لیفٹیننٹ جنرل مجیب الرحمان کی توجہ مبذول کرا لی، جنہوں نے مطالبہ کیا کہ اداریہ لکھنے والے کو فوری طور پر برطرف کیا جائے۔
ضیاالدین صاحب کو تحریر لکھنے کا افسوس نہیں ہوا لیکن غوری صاحب کے اعتماد کو توڑنے کا انہیں افسوس تھا۔ چونکہ جمعہ کا دن تھا، غوری صاحب ہفتہ وار چھٹی پر تھے، جس کی وجہ سے پریس میں جانے سے پہلے انہوں نے اداریہ نہیں دیکھا تھا۔ ضیاالدین صاحب کا کہنا ہے کہ "میں نے اُنھیں بتایا کہ مجھے ان کے اعتماد کو توڑنے پر افسوس ہے لیکن میں نے اداریہ لکھنے پر کوئی افسوس محسوس نہیں کیا"۔ غوری صاحب نے اسے اپنے مخصوص انداز میں سنبھالا۔ ضیاالدین کو ایک اداریہ لکھنے پر شوکاز نوٹس جاری ہونے کے بعد 'جس سے کسی غیر ملک کے ساتھ دوستانہ تعلقات خراب ہو سکتے ہیں' ضیاالدین نے تحریری طور پر معافی مانگتے ہوئے کہا کہ یہ ان کا ارادہ نہیں تھا۔ غوری صاحب اور ضیاالدین دونوں ایک ایک ماہ کی چھٹی پر چلے گئے۔ "آئیے دیکھتے ہیں کہ جب ہم واپس آتے ہیں تو کیا ہوتا ہے!" اُنھوں نے کہا تھا۔ یہ دونوں آدمیوں کی آخری ملاقات تھی۔ غوری صاحب نے فوراً استعفا دے دیا اور ضیاالدین صاحب کو اسلام آباد سے شروع ہونے والے اخبار دی مسلم میں ملازمت کی پیشکش ہو گئی۔
'دی مسلم' کے سال، سیٹھ ایڈیٹر تعلقات
کراچی میں تقریباً 20 سال رہنے کے بعد، ضیاالدین صاحب اسلام آباد چلے گئے جہاں انہوں نے 1978 میں دی مسلم کے ایڈیٹر، اے ٹی چوہدری کے ساتھ کام کیا۔ "وہ ایک مکمل ایڈیٹر تھے،" ضیاالدین صاحب یاد کرتے ہیں۔ لیکن اخبار کے مالک، آغا مرتضیٰ پویا، غیر مخفی عزائم کے ساتھ جزوقتی سیاست دان تھے۔ چوہدری صاحب کی قیادت میں اخبار کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہوا، اسی طرح آغا کے سیاسی عزائم اور ادارتی فیصلہ سازی میں ان کی مداخلت بھی بڑھی۔
ضیا کی آمریت کے عروج پر مسلم کا آغاز ہوا۔ ادارتی طور پر اے ٹی نے وہی کیا جو اخبار کے سینئرز ایک مشکل حالات میں کرتے ہیں۔ حکومتی پالیسیوں کی کوریج اہم ہوگی لیکن محاذ آرائی نہیں ہوگی۔ منہاج برنا سمیت اخبار کا زیادہ تر سینیئر سٹاف ان صحافیوں کی بڑی تعداد پر مشتمل تھا جن کو نیشنل پریس ٹرسٹ کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے ایک کھلا خط لکھنے پر پاکستان ٹائمز سے برطرف کیا گیا تھا۔ جب اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ادارتی ٹیم کے اس پہلو کے بارے میں سوال کیا گیا تو، اے ٹی نے 'باغیوں' کو اپنی کڑی نظر میں رکھنے کے فوائد گنوائے بجائے اس کے کہ وہ حکومت کے لئے شرمناک فساد پیدا کریں۔ ایڈیٹر نے حکمران جماعت کے ساتھ باہمی احترام کا ایک قسم کا تعلق پیدا کر لیا تھا جس نے شاید اخبار کے لئے یہ جگہ پیدا کر دی تھی کہ وہ سمجھدار قارئین میں اپنی ساکھ قائم کر سکے۔
ضیاالدین صاحب اور دیگر سینیئر ساتھی روزانہ پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ میں بنے ہوئے صفحات لے کر جاتے تھے جہاں ایک جونیئر انفارمیشن آفیسر نہایت باریک بینی کے ساتھ اُن کا جائزہ لیتا۔ جو کچھ بھی افسر نے محسوس کیا کہ وہ حکومتی پالیسی کے مطابق نہیں ہے یا حکومت پر تنقید ہے، اسے صفحہ سے ہٹا دیا جائے گا اور نیوز روم میں واپس بھجوا دیا جائے گا۔ صفحہ انچارج کو خالی جگہ کو کسی معصوم کہانی سے بھرنا پڑے گا۔ لیکن چند مہینوں کے بعد، اخبار نے جان بوجھ کر خالی جگہوں کو چھوڑنا شروع کر دیا۔ جیسا کہ پرنٹ میں ہے۔ یہ سنسر شپ کے خلاف ایک خاموش احتجاج تھا۔ ضیا کے دور میں ایک اور قانون بھی متعارف کرایا گیا جس میں کہا گیا کہ اگر کوئی ہتک آمیز کہانی حقائق اور سچائی پر مبنی ہو تب بھی اخبار کو سزا دی جائے گی۔
1981 میں جب پبلشر کے عزائم بالآخر آشکار ہو گئے تو اے ٹی چوہدری گھر چلے گئے۔ یہ دی مسلم کے ساتھ ان کی مختصر لیکن واقعاتی وابستگی کا خاتمہ تھا۔ اس کے باوجود ضیاالدین صاحب اور چند ساتھی لاہور گئے تاکہ اُنھیں واپس آنے پر راضی کریں لیکن اے ٹی نے انکار کر دیا۔ انہوں نے بلکہ ان کو سمجھایا کہ پبلشر آغا مرتضیٰ پویا کی ایڈیٹر کی ذمہ داریوں کی سمجھ کیا تھی: ’’کیا آپ نے ایک ماہر فنکار کو اپنے کینوس کے سامنے ہاتھ میں برش لیے کام کرتے دیکھا ہے؟ اس کے سٹروک اور جو کچھ کینوس پر ابھرتا ہے وہ اتنا آسان، اتنا آسان نظر آتا ہے۔ جب وہ واقعی پینٹنگ برش کو ہاتھ میں لے کر کینوس کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے جس سے وہ پینٹنگ شروع کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں تو وہ جان جائیں گے کہ وہ خود کو کس طرف لے گئے ہیں!"
چوہدری صاحب ٹھیک کہتے تھے۔ آغا پویا جلد ہی راستہ بھول گئے۔ پھر مایوسی کی وجہ سے کچھ ساتھیوں نے اخبار پر قبضہ کرنے کا فیصلہ کیا، جس کی قیادت ضیاالدین صاحب نے کی۔ پویا نے کنٹرول حاصل کرنا چاہا لیکن صحافیوں نے ہار نہیں مانی۔
انفارمیشن سیکرٹری مجیب الرحمان اس پیش رفت سے خاصے برہم تھے۔ جب ضیاالدین صاحب نے مارننگ نیوز سے استعفا دیا تھا تو رحمان نے انہیں ایڈیٹر کی نوکری کی پیشکش کی تھی کہ اگر وہ پی ایف یو جے سے دستبردار ہو جائیں اور یونین کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل کے عہدے سے استعفیٰ دیں۔ ضیاالدین نے پیشکش ٹھکرا دی تھی۔
پہلے ضیاالدین صاحب کا بنگلہ دیش کا اداریہ، پھر پی ایف یو جے سے استعفا دینے سے انکار اور اب یہ ٹیک اوور۔ انفارمیشن سکریٹری بدتمیز تھے۔ "ایک قبضہ اور وہ بھی دارالحکومت کے مرکزی راستے پر!" مسلم عین آبپارہ روڈ پر واقع تھا۔ رحمان نے پوری ادارتی ٹیم کو گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ ضیاالدین صاحب کہتے ہیں، "خوش قسمتی سے میں گرفتاری سے بچ گیا کیونکہ میں اپنی بیوی کے ساتھ فلم دیکھنے گیا تھا۔ جب میں دفتر واپس پہنچا تو میں نے دیکھا کہ پولیس نے احاطے پر قبضہ کر لیا ہے۔ مجھے اندر جانے کی اجازت نہیں تھی اور میرے تمام ساتھی غائب تھے"۔
پہلا کام ضیاالدین صاحب کی ٹیم کے لئے اپنے ساتھیوں کو رہا کرانا تھا۔ روئیداد خان اس وقت وفاقی سیکرٹری داخلہ تھے۔ کسی نہ کسی طرح وقت ضائع کیے بغیر ریلیز آرڈر جاری کر دیا گیا۔ شاید اس لئے کہ انتظامیہ نہیں چاہتی تھی کہ دارالحکومت میں امن و امان کی صورتحال پیدا ہو جہاں تمام سفارت خانے اور بیشتر غیر ملکی خبر رساں اداروں کے بیورو واقع تھے۔ پھر آغا پویا سے مالی مذاکرات شروع ہوئے۔ ضیاالدین فخر کے ساتھ یاد کرتے ہیں کہ سیاست دان سے سینیٹر بنے آغا مرتضیٰ پویا کو ان تمام صحافیوں کی تین ماہ کی علیحدگی کی تنخواہ دینی پڑی جن کو انہوں نے برطرف کیا تھا۔ اس مہم میں سب سے آگے ایک سرگرم ٹریڈ یونینسٹ ایاز امیر اور مسلم یونین کے ایک عہدیدار اقبال جعفری تھے، جنہیں ضیا کے دور حکومت کے ابتدائی دنوں میں ناصر زیدی کے ساتھ عدالت کی طرف سے کوڑے مارے گئے تھے۔
اس واقعہ کا ایک غیر متوقع نتیجہ یہ نکلا کہ ضیاالدین صاحب کے اکثر اخباری ساتھی جن کے پاس اسلام آباد میں رہنے کی جگہ نہیں تھی، ان کے گھر پر ڈیرے ڈالنے لگے۔ "یہ ان دنوں ایک ایسے موٹل کی طرح لگتا تھا جہاں تل دھرنے کی گنجائش نہ ہو۔"
(جاری ہے)
دوسرا حصہ پڑھیے