اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے احسن اقبال کے خلاف نارووال سپورٹس سٹی کمپلیکس میں درخواست ضمانت پر سماعت کی جس سلسلے میں ایڈیشنل پراسیکیوٹر نیب عدالت میں پیش ہوئے۔ ایڈیشنل پراسیکیوٹر نیب نے احسن اقبال کی درخواست ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ملزم کے بیرون ملک فرار اور ریکارڈ میں ٹیمپرنگ کا بھی خدشہ ہے۔
اس پر عدالت نے حیرانی کا اظہار کیا کہ ملزم کی سرکاری دفتر اور ریکارڈ تک کیسے رسائی ہوسکتی ہے؟ اور اگر ملزم کے فرار کا خدشہ ہے تو ان کا نام ای سی ایل میں ڈال دیں۔
ایڈیشنل پراسیکیوٹر نے عدالت سے کہا کہ اگر احسن اقبال اپنا پاسپورٹ عدالت میں جمع کرائیں تو ضمانت پر کوئی اعتراض نہیں۔ بعد ازاں عدالت نے احسن اقبال کی ایک کروڑ روپے ضمانتی مچلکوں کے عوض ضمانت بعد از گرفتاری منظور کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دے دیا۔
واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال کو گذشتہ سال 23 دسمبر کو نیب نے گرفتار کیا تھا۔
احسن اقبال کے خلاف نیب دستاویز میں کہا گیا تھا کہ نارووال سپورٹس کمپلیکس سٹی منصوبے کی لاگت 34.410 ملین روپے سے بڑھا کر 97.520 ملین کی گئی اور لاگت بڑھانے کی کسی مجاز اتھارٹی یا فورم سے منظوری نہیں لی گئی۔
نیب دستاویز کے مطابق سی ڈی ڈبلیو پی سے منصوبے کا دائرہ کار بڑھانے کی منظوری نہ لینا اور ایسا خود کرنا بدنیتی ہے، منصوبہ پلاننگ کمیشن کے ڈیویلپمنٹ مینوئل میں درج قابل عمل سٹڈی کے بغیر شروع کیا گیا، 50 ملین سے زیادہ کی لاگت کا سکوپ بڑھانے کیلئے قابل عمل ہونے کی سٹڈی ضروری ہے۔
دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ منصوبہ ریکارڈ کے ساتھ 15 مارچ 2012 کو پنجاب حکومت کے حوالے کیا گیا، پنجاب سپورٹس بورڈ کو منصوبے کی حوالگی کے باوجود احسن اقبال نے اس پر وفاقی حکومت کے فنڈزخرچ کیے۔
رہنما مسلم لیگ ن پر الزام لگایا گیا ہے کہ احسن اقبال نے بدنیتی سے منصوبے کا دائرہ کار بڑھایا جس کا کوئی مطالبہ بھی نہیں کیا گیا تھا۔ نیب دستاویز کے مطابق منصوبے کا ازسرنو پی سی ون تیار کیا گیا جس کی لاگت 2498.779 ملین تھی، نئے پی سی ون کی منظوری 17 جولائی 2014 کو سی ڈی ڈبلیو پی نے دی جس کی سربراہی خود احسن اقبال کر رہے تھے۔
نیب کے مطابق منصوبے کا ایک اور پی سی ون تیار کرایا گیا جس کی لاگت 2994.329 ملین روپے تھی، سی ڈی ڈبلیو پی نے تین مئی 2017 کو اس کی منظوری دی۔