ماضی کی مثال دیتے ہوئے ضیاالدین کا کہنا تھا کہ ایون فیلڈ کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ اس کیس میں تو کوئی کرپشن ہے ہی نہیں۔ فلیگ شپ کیس میں نواز شریف کو بری کر دیا گیا جبکہ وڈیو کیس تاحال نہ ثابت ہوا اور نہ برخاست۔
نیب نے بطور ایجنسی، باربار یہ ثابت کیا ہے کہ وہ حکومت وقت سے ہدایات لے رہی ہے کیونکہ جتنے بھی بڑے کرپشن کے کیسز بنے ہیں، وہ سارے حزب اختلاف کے لیڈرز کے خلاف بنائے گئے ہیں، البتہ ثابت کوئی کیس نہیں کیا گیا۔ ضیا الدین صاحب کا کہنا تھا کہ اب یہ سلسلہ بند ہو جانا چاہیے اور حکومت اور حزب اختلاف کو مل کر نیب قوانین ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نیب کے کام کرنے کا طریقہ مزید متنازع نہ ہو۔
اس بارے میں سینیئر صحافی مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ یہ ن لیگ کے لئے خوشی کی خبر ہے کہ اس کے دو سینیئر رہنماؤں کو ضمانت مل گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ جس طرح کے الزامات دونوں رہنماؤں پر تھے اور جس طرح نیب میں کارروائی ہوئی، یہ بات یقینی تھی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں ضمانت پر رہا کر دینا ہے۔
مرتضٰی سولنگی کا مزید کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور ن لیگ کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال، دونوں ہی کافی سرگرم اور مدلل انداز کے حامل ہیں اور ان کی رہائی مسلم لیگ کو ٹی وی ٹاک شوز، پریس کانفرنسز اور پارلیمنٹ میں کافی مدد فراہم کرے گی۔
حکومت پنجاب کے بارے میں بات کرتے ہوئے سینیئر صحافی کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت نے اپنے طور پر نواز شریف کو واپس بلانے کا فیصلہ کر تو لیا ہے لیکن جب تک لندن کے ڈاکٹرز نواز شریف کی صحت کو خطرے سے باہر قرار نہیں دے دیتے، سابق وزیر اعظم کو وطن واپس لانا ممکن نہیں ہے۔
مرتضیٰ سولنگی کا مزید کہنا تھا کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حکومت جانے والی ہے یا کوئی ان ہاؤس تبدیلی آنے والی ہے کوینکہ ن لیگ کی قیادت میں سے آوازیں آ رہی ہیں کہ وہ ایسی کسی کوشش کا حصہ نہیں بنے گی کیونکہ اس وقت ملک جتنے بحرانوں کا شکار ہے، ایسے میں کارکردگی دکھانا ممکن نہ ہوگا۔