فیصلہ سازوں کے درمیان صنفی توازن بھی ضروری ہے۔ جنوبی ایشیا کے بہت سے حصوں میں، خواتین کو اکثر کمیونٹی اور اس سے اوپر سطح پہ فیصلہ سازی سے دور رکھا جاتا ہے۔ جب موسمیاتی تبدیلی سے متعلق مسائل کے جواب میں خواتین کے نقطہ نظر کو سنا اور شامل نہیں کیا جائیگا، تو اس کا نتیجہ ایسی پالیسیوں کی صورت میں نکل سکتا ہے جو معاشرے کی تمام ضروریات کی عکاسی کرنے میں ناکام رہیں گی۔
جنوبی ایشیا میں متعدد اقدامات صنف کو موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق کارروائی کے مرکز میں لانے اور سرحدوں کے پار اپنے علم اور تجربے کو بانٹنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔دی تھرڈ پول نے ہمالیہ اور انڈس بیسن میں کام کرنے والے تین ایسے پروگراموں کے نمائندوں سے بات کی۔
موسمیاتی تبدیلی میں پالیسی سازی میں صنف کی شمولیت
کوثربانو انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈیولپمنٹ (آئی سی آئی ایم او ڈی) میں صنف اور موافقت کی ماہر ہیں، اور پاکستان میں اپر انڈس بیسن نیٹ ورک کے لئے آئی سی آئی ایم او ڈیز جینڈر ریسورس گروپ کے لئے کام کرتی ہیں۔
دی تھرڈ پول: آپ کے پروجیکٹ کا مقصد کیا حاصل کرنا ہے؟
کوثر بانو: جینڈر ریسورس گروپ محققین، پریکٹیشنرز، اور کمیونٹی کے نمائندوں کے لئے ایک پلیٹ فارم ہے جو صنفی اور پانی-توانائی-خوراک کی سیکیورٹیز سے متعلق مسائل پر کام کرتے ہیں۔ اس گروپ کا مقصد، آب و ہوا کے خطرات اور نقصانات کو سمجھنے سے لے کر موافقت کے اقدامات کی منصوبہ بندی تک، اپنی پروفیشنل خواتین کے علم کو پھیلانا اور منصوبہ سازوں اور فیصلہ سازوں میں صنفی امتیازی کمزوریوں کے بارے میں آگاہی بڑھانا ہے۔
[ہمارا مقصد] سائنس اور پریکٹس کو ایک ساتھ لانا ہے تاکہ پالیسیوں اور فیصلہ سازوں کو اچھی طرح سے آگاہ کیا جا سکے، صنف پر مشتمل ڈویلپمنٹ کو [فعال بنانا] اور صنفی نقطہ نظر کو سامنے لانا ہے جو فی الحال غائب ہیں۔
دی تھرڈ پول: آپ کا کام جنوبی ایشیا میں موسمیاتی تبدیلی کے ردعمل میں موجودہ صنفی عدم توازن کو دور کرنے میں کس طرح مدد کرتا ہے؟
کوثر بانو: سماجی ثقافتی اصولوں اور اقدار کو چیلنج کرنے کے لئے، جن کے نتیجے میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے مردوں کے مقابلے میں خواتین کو زیادہ خطرات لاحق ہیں، پالیسیوں، پروگراموں اور فیصلہ سازی میں خواتین کی مکمل شرکت ضروری ہے۔ خواتین کی شرکت کو بہتر بنانے سے آبادی کے ایک بڑے حصے کی آوازیں اور مقامی اور دیسی علم سامنے آئیں گے، جس سے نمٹنے کی ہدفی حکمت عملی تیار کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔
سندھ طاس میں پانی، توانائی اور خوراک کے شعبوں میں کام کرنے والے پریکٹیشنرز، محققین اور پالیسی سازوں کے لئے یہ پلیٹ فارم قومی اور علاقائی سطح پر پالیسی میں تبدیلیوں کے لئے علم کے اشتراک اور وکالت کے لئے صنفی نیٹ ورک بناتا ہے۔ پدرشاہی معاشرے میں جو خواتین کی آواز کو دباتا ہے، صنفی مسائل اور خدشات کو دور کرنے کے لئے ایسے وسیع مقصد کے حامل نیٹ ورک کی بہت ضرورت ہے ۔
دی تھرڈ پول: یہ منصوبہ سرحدوں کے پار تعاون کی حوصلہ افزائی کیسے کرتا ہے؟
کوثر بانو: انڈس بیسن ( جو چین، انڈیا اور پاکستان پر محیط ہے ) میں کام کرنے والے ماہرین اور تنظیموں کے درمیان صنف اور پانی، توانائی اور خوراک کی سیکیورٹیز سے متعلق مسائل پر معلومات کا اشتراک محدود ہے۔ جینڈر ریسورس گروپ کے ذریعے ایسے افراد، اجتماعات اور اداروں کو ایک پلیٹ فارم پر لانا انڈس بیسن اور اس سے پارعلم کے اشتراک اور تبادلے کو سپورٹ کرتا ہے۔
پاکستان کی ڈیزاسٹر ہیلپ لائن میں خواتین
جون 2020 میں، ایک وقف ایمرجنسی رسپانس ہیلپ لائن ‘سندھ ایمرجنسی سروس ریسکیو 1122‘ کا آغاز جنوبی پاکستان کے صوبہ سندھ میں کیا گیا تاکہ کمیونٹی کو ہر قسم کی ہنگامی صورتحال اور آفات کے لئے ‘ون ونڈو’ سروس فراہم کی جا سکے۔ منصوبے کی ابتدائی کامیابی کی بنیاد پر، اور موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ سروسز کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر غور کرتے ہوئے، حکومت سندھ اب ورلڈ بینک کی مالی اعانت سے چلنے والے سندھ فلڈ ایمرجنسی ری ہیبیلٹیشن پراجیکٹ کے تحت اس منصوبے کو سندھ کے سات سے سولہ اضلاع تک بڑھا رہی ہے۔
یہ 1122 سروس خواتین کو بھرتی اور تربیت دے رہی ہے تاکہ وہ سیلاب جیسی آفات سے نمٹنے کے لئے فرسٹ ریسپانڈر کے طور پر کام کرسکیں۔ تسکین زیدی ایک کنٹرول روم آپریٹر ہیں جو کراچی میں ریسکیو 1122 ہیڈ کوارٹر میں ایمرجنسی کالز کی منتظم ہیں۔
تسکین زیدی: میرے اردگرد بہت سے لوگوں نے کہا کہ ایک عورت ہونے کے ناطے میں اس قسم کا کام نہیں کر سکتی۔ تاہم، میں یہ ثابت کرنا چاہتی تھی کہ ایک عورت نہ صرف کام کر سکتی ہے، بلکہ وہ اپنی کمیونٹی کے لئے قابل قدر خدمات انجام دے سکتی ہے۔ چنانچہ میں نے ریسکیو 1122 میں پوزیشن کے لئے درخواست دی اور منتخب ہوگئی۔
ہمارا معاشرہ یہ سمجھتا ہے کہ خواتین جسمانی کام نہیں کر سکتیں اور جسمانی تربیت کے ساتھ ایک بدنما داغ بھی جڑا ہوا ہے۔ عورت چاہے جم جا رہی ہو، پارک میں دوڑ رہی ہو یا ریسکیو خدمات سرانجام دے رہی ہو، ہمارا معاشرہ یہ مانتا ہے کہ عورتیں ایسا کام نہیں کر سکتیں اور نہ ہی انہیں کرنا چاہیے جو سخت ہو یا جس میں جسمانی مشقت کی ضرورت ہو۔
میں خواتین کے بارے میں اس محدود تصور کو تبدیل کرنا چاہتی تھی۔ میں لوگوں کی خدمات کا اپنا خواب پورا کرنا چاہتی تھی۔ آج مجھے سندھ کی ریسکیو ٹیم کا حصہ ہونے پر فخر ہے۔ مجھے امید ہے کہ اپنے سفر کے ذریعے میں دوسری خواتین کو ان کے خوابوں کی پیروی کرنے کی ترغیب دوں گی اور عورت کی خواہش کے مطابق کوئی بھی کام کرنے کی اہلیت کے بارے میں معاشرے کی محدود سوچ کو تبدیل کروں گی۔
پارس انر کراچی میں ریسکیو 1122 ہیڈ کوارٹر میں ریسکیو آلات کی انوینٹری اور تعیناتی کی ذمہ دار ہیں۔
پارس انر : میرے دوسرے بچے کی پیدائش کے بعد، میں پوسٹ پارٹم ڈپریشن سے گزر رہی تھی۔ اس وقت میرے بھائی نے ریسکیو 1122 سندھ میں نوکری کے لئے درخواست دینے کا مشورہ دیا۔ اس نے مجھے فوری طور پر ایک مختلف نقطہ نظر دیا کہ دوسرے لوگوں کی تکلیف مجھ سے کہیں زیادہ تھی۔
جب میں اپنی وردی پہن کر بس پر کام پر جانے کے لئے سفر کرتی ہوں تو خود کو ریسکیو 1122 کی سفیر محسوس کرتی ہوں۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ میں کیا کرتی ہوں اور جب میں انہیں بتاتی ہوں تو وہ مجھے بہت عزت دیتے ہیں اور مجھے کہتے ہیں کہ انہیں مجھ پر فخر ہے۔ یہاں تک کہ ایک دن میرے بیٹے کے اسکول کے پرنسپل نے مجھے ملنے کو کہا تاکہ میں اسکول کے بچوں کو ریسکیو کے کام کے بارے میں آگاہ کر سکوں۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر عورت کو خود پر یقین ہو تو وہ دنیا کا کوئی بھی کام کر سکتی ہے۔
عابد جلال الدین شیخ ریسکیو 1122 کے ریسکیو ڈائریکٹر ہیں، اور کراچی میں مقیم ہیں۔
دی تھرڈ پول : ریسکیو 1122 موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے لحاظ سے صنفی عدم مساوات کو کیسے دور کرتا ہے؟
عابد جلال الدین شیخ: آفات اور موسمیاتی تبدیلیاں معاشرے میں موجودہ عدم مساوات اور صنفی تعصبات کو بڑھاتی ہیں، جس سے امتیازی سلوک کی مختلف شکلوں اور لڑکیوں اور خواتین کے لئے عدم تحفظ میں اضافہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے 2022 کے سیلاب میں مشاہدہ کیا، صنفی حساس آفات کی تیاری، ردعمل اور بحالی میں سرمایہ کاری سب سے اہم ہے۔ اس کے لیے لڑکیوں اور خواتین کی مختلف ضروریات اور تجربات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ کے تمام مراحل میں خواتین کو شامل کرنا، بشمول ایمرجنسی ریسکیو سروسز، بہت ضروری ہے تاکہ خدمات موافق، مناسب اور پائیدار ہوں۔ سندھ فلڈ ایمرجنسی فلڈ بحالی پراجیکٹ کا مقصد سندھ ایمرجنسی سروس کے تحت بھرتی کردہ خواتین ریسکیورز اور انتظامی عملے کے تناسب کو اگست 2024 تک 30 فیصد تک پہنچانا ہے۔ یہ درحقیقت پاکستان کے سیاق و سباق کو مدنظر رکھتے ہوئے جہاں صنف سے متعلق ایک واضح صنفی فرق موجود ہے ایک انتہائی بلندنظر ہدف ہے۔
دی تھرڈ پول: یہ پروجیکٹ پاکستان کی سرحدوں سے آگے صنف لحاظ سے آفات سے متعلق ردعمل کی حوصلہ افزائی کیسے کرتا ہے؟
عابد جلال الدین شیخ: سندھ ایمرجنسی سروس ریسکیو 1122 مقامی اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر شہری سرچ اینڈ ریسکیو آپریشنز کے حوالے سے مطلوبہ اہداف اور مقاصد حاصل کر رہی ہے۔ یہ منصوبہ بین الاقوامی میکانزم جیسے کہ یو این انٹرنیشنل سیارچ اینڈ ریسکیو ایڈوائزری گروپ (یو این آئی این ایس اے آر اے جی) کے ساتھ رابطے میں ہے اور ہم سرحد پار علم کی منتقلی اور تنظیموں کے درمیان بین الثقافتی مکالمے کے لئے پرجوش ہیں۔
صنف اور موسمیاتی تبدیلی سے متعلق علم کو یکجا کرنا
آدتیہ بستولا نیپال میں آئی سی آئی ایم او ڈی میں صنفی ماہر ہیں، جن کا کام کوشی جینڈر پورٹل پر مرکوز ہے، جو کہ سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ انویسٹمنٹ پورٹ فولیو II پروگرام کے تحت تیار کردہ ایک پروجیکٹ ہے، اور جس کے مقاصد میں چین، بھارت اور نیپال تک پھیلے ہوئے کوشی ریور بیسن میں صنفی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنا شامل تھا۔
دی تھرڈ پول: کوشی جینڈر پورٹل کیا ہے، اور اس کا کیا مقصد ہے؟
آدتیہ بستولا: آئی سی آئی ایم او ڈی کا کوشی جینڈر پورٹل لوگوں کو آپس میں جوڑتا ہے اور صنفی عدم مساوات، وسائل تک رسائی اور ان پر کنٹرول، اور پانی، خوراک اور توانائی کے عدم تحفظ سے متعلق ابھرتی ہوئی صنفی باریکیوں کے بارے میں علم کو مرتب کرکے دریاۓ کوشی کے بیسن کے پار معلومات کے اشتراک میں سہولت فراہم کرتا ہے۔
پورٹل کے مقاصد بیسن کی سطح پر جنسی تفریق شدہ ڈیٹا کا ایک ذخیرہ تیار کرنا اور مختلف اسٹیک ہولڈرز کے درمیان نیٹ ورکنگ کو فروغ دینا ہے۔ جینڈر پورٹل میں پانی-توانائی-خوراک سے متعلق جینڈر ٹرانسفورمیٹو چینج کے لئے اچھی مشقوں کی کیس اسٹڈیز شامل ہیں، جس کے لئے دریائی بیسن کے پیمانے پر جداگانہ صنفی ڈیٹا کا تجزیہ کیا جاتا ہے
صنفی پورٹل کو فیصلہ اور پالیسی اصلاحات کی سپورٹ کے لئے بطور ایک ٹول ڈیزائن کیا گیا ہے جو صنفی مساوات کی حمایت کرتا ہے، اس لئے مواد کو حتمی صارفین جیسے محققین، اکیڈمی، پالیسی سازوں، اور سول سوسائٹی کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔
دی تھرڈ پول: تو یہ منصوبہ سرحدوں کے اس پار خواتین پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے میں کس طرح مدد کر سکتا ہے؟
آدتیہ بستولا: صنفی فرق کو درست طریقے سے جانچنے اور بیسن کی سطح پر خواتین اور مردوں کی حقیقتوں کو سمجھنے کے لئے، یہ ضروری ہے کہ جنسی تفریق شدہ ڈیٹا پر انحصار کیا جائے اور وقت کے ساتھ تبدیلیوں بشمول معاشرے میں خواتین اور مردوں کی حیثیت یا صورتحال میں ہونے والی تبدیلیوں کو ٹریک کیا جائے۔ چین، بھارت اور نیپال کے جنسی تفریق شدہ اعداد و شمار کا موازنہ کرکے، پالیسی ساز، منصوبہ ساز، محققین، اور عمل درآمد کرنے والے ترقیاتی منصوبہ بندی اور پالیسی، پروگرامنگ، اور مربوط ریور بیسن مینجمنٹ میں صنفی مسائل کو بہتر طریقے سے حل کر سکتے ہیں۔ یہ نقطہ نظر بدلتے ہوئے موسمی حالات کے صنفی اثرات پر بھی غور کرتا ہے۔
بین السرحد کوشی دریا کا بیسن 40 ملین سے زائد لوگوں کا گھر ہے جو پانی پر مبنی ذریعہ معاش جیسے زراعت، مویشیوں اور ماہی گیری پر منحصر ہیں۔ بیسن کے مشترکہ ممالک، چین، ہندوستان اور نیپال کا دستیاب ڈیٹا مختلف ہے۔ جنسی تفریق شدہ ڈیٹا کے ذخیرے سے صنفی اشاریوں کے موجودہ مجموعہ کو بہتر بنانے کے لئے اندازہ لگایا جاتا ہے جو بیسن ممالک صنفی رپورٹنگ کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ، سول سوسائٹی گروپس اور غیر سرکاری تنظیمیں صنفی پورٹل کا استعمال پریکٹیشنر سے پریکٹیشنر مکالمے، ہم مرتبہ سے ہم مرتبہ تعاون، اور علاقائی تعاون کو مضبوط کرنے اور کوشی دریا کے بیسن میں ذریعہ معاش کو یقینی بنانے کے لئے نیٹ ورکنگ کے لئے کرتی ہیں۔