نیا دور کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ اگر فل کورٹ بنچ بنا دے تو موجودہ تنازعہ تھم جائے گا۔ ایک سیاسی جماعت کو انتخابات کی جلدی ہے اور دو ججز ان کے ساتھ مل گئے ہیں۔ کیس کسی اور کا سنتے سنتے آپ نے یہ ازخود نوٹس لے لیا۔ سوموٹو لے کر سپریم کورٹ نے دونوں ہائی کورٹس کا گلا گھونٹ دیا۔ ثاقب نثار، کھوسہ، بندیال کیوں ان دونوں ججوں کو بنچوں میں رکھنے کے خواہش مند رہے ہیں؟ چیف جسٹس بغل بچے ججز سپریم کورٹ میں لے کر آئے ہیں۔ جونیئر ججز کو ہائی کورٹ واپس بھجوانا چاہئیے۔
صحافی نسیم صدیقی نے کہا کہ زرداری صاحب نے خود چارٹر آف ڈیموکریسی کے بارے میں بعد میں کہہ دیا تھا کہ معاہدے کوئی قرآن و حدیث نہیں ہوتے۔ اپریل 2022 کی تحریک عدم اعتماد کے پیچھے بھی خفیہ ہاتھ تھا۔ سیاست دان خود اسٹیبلشمنٹ کو موقع دیتے ہیں۔ یہ چیف جسٹس کا استحقاق ہے کہ وہ جو مرضی چاہیں بنچ بنائیں، اگر وہ 22 کروڑ عوام کے مشورے سے بنانا چاہیں تو وہ نہیں بنا سکتے۔ مریم نواز نے جس طرح ججز کی تذلیل کی ہے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو رہی۔ اس سے نظر آ جاتا ہے کون لاڈلہ یا لاڈلی ہے۔
وکیل سلمان عابد نے کہا کہ سپریم کورٹ فل بنچ بھی بٹھا دے تب بھی جس فریق کے خلاف فیصلہ آئے گا وہ اس کو نہیں مانے گا۔ جب گورنر، الیکشن کمیشن سمیت سب نے الیکشن کی تاریخ کے معاملے پر ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں تو یہ آئین کی تشریح کا معاملہ ہے جو لازمی طور پر عدالت ہی میں جائے گا۔ 2018 سے پہلے شریف خاندان جو بنچ فکسنگ کرتا رہا ہے ان پر بھی بات ہونی چاہئیے۔ عدلیہ کا بیڑا غرق کرنے میں شریف خاندان کا بھی پورا پورا ہاتھ ہے۔
مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ عدلیہ جب سیاسی معاملات میں پڑتی ہے تو پھر اسی طرح کی صورت حال پیش آتی ہے جو اب پیش ہے۔ موجودہ مسئلہ سیاسی ہے اور اس کا حل بھی سیاسی طریقے سے نکلنا چاہئیے۔ عدالت جو بھی فیصلہ دے گی متنازعہ ہو جائے گا۔
پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ 'خبر سے آگے' ہر پیر سے ہفتے کی شب 9 بج کر 5 منٹ پر پیش کیا جاتا ہے۔