اس کی تازہ ترین مثال پچھلے دنوں مودی کے انتہا پسند رویے کو فروغ دینے اور جعلی ریٹنگ حاصل کرنے والے ٹی وی چینل کے مشہور اینکر ارنب گوسوامی اور براڈ کاسٹ آڈئینس کونسل یعنی بارک کے سربراہ پراتھو گپتا کے مابین واٹس اپ پیغامات کا دستاویزی ریکارڈ ہے جس کے لیک ہونے سے بھارت اور پاکستان سمیت دنیا کے امن پسند حلقوں میں بھونچال برپا ہے اور مودی کے انتہا پسندانہ اقدامات کا ایک دفعہ پھر عملی چہرہ کھل کر سب کے سامنے عیاں ہے۔
اس ریکارڈ کے مطابق 14 فروری 2019 کو پلوامہ حملے کے کچھ دیر کے بعد گوسوامی نے گپتا کو یہ ٹیکسٹ بھیجا کہ حملہ اس کے چینل کی ریٹنگ کے لیۓ ٹھیک رہا ہے۔ اس کے بعد بالا کوٹ پر بھارتی حملہ سے تین دن قبل یعنی 23 فروری 2019 کو گوسوامی بھارتی فضائیہ کے بالا کوٹ پر ممکنہ حملے کا ذکر اپنے ٹیکسٹ میں کرتا ہے اور اس کی وجہ کشمیر میں ہونے والی ایک بڑی چیز یعنی پلوامہ حملے کو قرار دیتا ہے۔
اس سے پاکستانی دفتر خارجہ اور حقائق کی سوجھ بوجھ رکھنے والے دیگر عناصر نے آسانی سے اندازہ لگا لیا کہ پلوامہ حملہ یا دھماکہ گویا مودی حکومت کے لیۓ ایک نعمت تھا۔دفتر خارجہ پاکستان کے مطابق پلوامہ حملہ دراصل بھارت نے خود ترتیب دیا تھا جس کے بعد جوابی کاروائی میں بالا کوٹ حملہ کیا گیا تاکہ ملکی انتخابات میں عوام کو الو بنا کر کامیابی کا سہرا مودی حکومت کے سر باندھا جا سکے۔
اس واقعہ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جوہری ہتھیار رکھنے والی طاقت بھارت مودی حکومت کی انتہا پسندانہ سوچ کے زیر اثر علاقائ امن کے لیۓ ایک سنگین خطرہ ہے۔دفتر خارجہ کے بقول مودی اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیۓ کچھ بھی کر سکتا ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ عالمی طاقتوں کی اکثریت مودی حکومت کے انتہا پسندانہ اور پروپیگنڈے پر مبنی اقدامات کو ابھی تک غیر سنجیدہ لے رہی ہیں۔ دراصل ان طاقتوں کے ذاتی مقاصد کی تکمیل علاقائی امن سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔
پلوامہ حملہ کی شکل میں جو ڈرامہ ترتیب دیا گیا تھا اس طرح کا ڈرامہ چند بھارتی انتہا پسند حکمرانوں کے نزدیک کوئی نئی بات نہیں۔اگر ماضی کا جائزہ لیں تو امریکی صدر بل کلنٹن کے بھارت کے دورہ کے موقع پر پاکستان کی کشمیر میں دہشت گردی ظاہر کرنے کے لیۓ ایک ثبوت کے طور پر مارچ دو ہزار میں ضلع اننت ناگ کے گاؤں چھتی سنگھ پورہ میں پینتیس کشمیری سکھوں کے قتل عام کی واردات بھی ہو چکی ہے۔اس وقت بھارت نے اس واقعہ کا ذمہ دار پاکستان سے اس وقت آپریٹ ہونے والی مجاہدین کی تنظیم لشکر طیبہ کو قرار دیا۔مگر یہ الگ بات ہے کہ کسی بھی جانب سے اس واقعہ کا ذمہ قبول نہیں کیا گیا۔
مقبوضہ کشمیر کی سکھ قیادت کو اس بات کا یقین ہے کہ یہ کام بھارتی ایجنسیوں کا ہے کیوں کہ پاکستان کی کشمیری مجاہدین کی کسی تنظیم کو بھی سکھوں کے خلاف دہشت گردی کا کوئ فائدہ نہیں۔امریکی صدر کو پاکستان کے خلاف بدظن کرنے کا اس سے سنہری موقع اور کوئ نہ تھا۔کشمیری سکھوں کی بات سچ پر مبنی لگتی ہے کیوں کہ کلنٹن انتظامیہ کی وزیر خارجہ میڈلین البرائٹ نے دو ہزار چھ میں اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب شائع کرائی جس میں واضع طور پر ہندو انتہا پسند دہشت گردوں کو کشمیری سکھوں کے قتل عام کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔
بلاشبہ علاقائی اور عالمی امن کو وزیراعظم مودی اور ان جیسے انتہا پسندوں کی سوچ سے سنگین خطرہ ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان ہر ایک عالمی پلیٹ فارم پر مودی کی انتہا پسند سوچ اور پاکستان مخالف پراپیگنڈے کو اجاگر کرتا رہے۔عالمی طاقتوں بالخصوص ہمسایہ ممالک کو چاہیۓ کہ بھارتی وزیراعظم کے اس طرح کے کارناموں کو سنجیدگی سے لیں ورنہ ایسے ایڈونچر ان کے ہاں بھی ہو سکتے ہیں یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ پاکستان پلٹ کر کوئی جوابی کارروائی کر دے اور پھر دونوں جوہری طاقتوں کے مابین لگی آگ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔