کراچی میں پختونوں کی آبادیاں شہر کے گیٹ ویز سپر ہائی وے، نیشنل ہائی وے اور آر سی ڈی ہائی وے پر آباد ہیں جن میں سہراب گوٹھ، لانڈھی انڈسٹریل ایریا، سائٹ، بلدیہ ٹاؤن، کیماڑی، اورنگی اور پرانی سبزی منڈی بڑی آبادیوں میں شامل ہیں۔
اگر ہم کراجی کے انتخابات پر نظر ڈالیں تو 2001 کے بلدیاتی اتنخابات میں عوامی نیشنل پارٹی اس وقت کے صوبائی صدر قموس گل خٹک کی سربراہی میں کراچی کے 18 ٹاؤنز میں سائٹ اور بلدیہ ٹائون میں کامیابی حاصل کر کے دونوں علاقوں میں اپنے ناظیمن بنانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ اس کے بعد 2008 کے جنرل الیکشن میں بھی اے این پی کے کراچی سے دو ممبران اسمبلی منتخب ہوئے تھے جن میں سے ایک پانچ سال تک پی پی پی کی اتحادی حکومت میں وزیر محنت رہے۔ یاد رہے کہ اس حکومت میں کیماڑی ٹاؤن سے پی پی پی کے ایک پحتون جیالے وزیر ٹرانسپورٹ بھی تھے۔
اس کے بعد 2013 کے عام انتخابات میں پختونوں کی آبادی کے بڑے کلسٹر سائٹ انڈسٹریل ایریا سے پی ٹی آئی کے ایم پی اے منتخب ہوئے جبکہ 2018 کے عام اتنخابات میں خیبر پختونخوا کی طرح کراچی میں بھی پختون ووٹ پی ٹی آئی کو پڑا۔ پہلی مرتبہ کراچی شہر سے قومی اسمبلی کی کل 21 نشستوں میں سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر 5 ایم این ایز پشتو بولنے والے منتخب ہوئے جن میں سیف الرحمان محسود، عالمگیرمحسود، کیپٹن جمیل، عطاء اللہ ایڈووکیٹ اور فہیم خان شامل تھے۔ اس کے علاوہ شہر سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر تین سے چار پختون اراکین سندھ اسمبلی بھی متنخب ہوئے۔
دوسری جانب پاکستان پپپلز پارٹی نے بھی لانڈھی ٹاؤن سے آغا رفیع اللہ اور پھر ضمنی الیکشن میں بلدیہ ٹاؤن سے قادر خان مندوخیل کو منتحب کر کے پختون ووٹروں کو ایک واضح پیغام دیا کہ کراچی میں قوم پرستی کا متبادل پی پی پی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ کراچی شہر جو عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ ساتھ پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کے لئے بھی ایک نرسری کا کردار ادا کر رہا تھا اس میں ایسا کیا ہوا کہ ایک دم سے ان کے تنظیمی ڈھانچے بھی کمزور ہوئے اور وہ پارلیمانی سیاست سے بھی غائب ہوتے جا رہے ہیں۔
اس کی متعدد وجوہات ہیں مگر سیاسیات کے ایک طالب علم اور کارکن کی حیثیت سے دونوں پختون قوم پرست جماعتوں کے تنظیمی ڈھانچے پر اجارہ داری، آمریت اور موروثیت کی وجہ سے پارٹی ون مین شو کے طور پر کام کر رہی ہے جبکہ تنظیمی ڈھانچہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
شہر کراچی میں بھی اس کے اثرات نظرانداز ہو رہے ہیں۔ کراچی میں پختون سیاست کے گڑھ باچا خان چوک بنارس میں قائم اے این پی کے صوبائی دفتر باچا خان مرکز میں سیاسی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ پارٹی کے سارے اجلاس شہر کے ایک پوش علاقے میں واقع صوبائی صدر بنگلے میں ہوتے ہیں۔ تنظیم میں اصولی بنیادوں پر ناراض کارکنوں کی جانب سے دھڑے بنائے گئے ہیں جبکہ اے این پی کو مین پاور مہیا کرنے والی طلبہ تنظیم پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن بھی سندھ کی سطح پر واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ پختون نوجوانوں کو پارٹی کی جانب راغب کرنے کے لئے قائم کی گئی نیشنل یوتھ آرگنائزیشن کو بھی ختم کر دیا گیا ہے۔
کراچی میں ڈومیسائل، پی آر سی اور ڈبل ایڈریس پر شناختی کارڈز کا اجراء نہ ہونا جیسے پختونوں کو درپیش مسائل پر بھی پختون قوم پرست جماعتوں کی خاموشی بھی ان کی غیر مقبولیت کی ایک اہم وجہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ گجر اور اورنگی نالہ کے ساتھ ساتھ مجاہد کالونی جیسی کچی آبادیوں کی مسماری پر بھی یہ جماعتیں بھرپور احتجاج کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
پی پی پی کی سندھ حکومت کی جانب سے شہر میں کی گئی حلقہ بندیوں سے جہاں ایم کیو ایم کو نقصان پہنچایا گیا، وہیں پختون آبادیوں پر مشتمل حلقے بھی تقسیم کئے گئے جس پر اے این پی، پختونخوا میپ اور حال ہی میں تشکیل دی گئی نئی جماعت نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ بھی خاموش بیٹھی رہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک ملکی سطح پر فعال پختون تحفظ موومنٹ بھی شہر کے مسائل پر چپ کا روزہ رکھ کر بیٹھ گئی ہے۔
ان ساری وجوہات کی بنا پر ایک جانب پی پی پی صوبائی حکومت ہونے کی وجہ سے پختون قوم پرست جماعتوں کے ووٹ بنک اور رہنمائوں کو اپنی جانب کھینچنے میں کامیاب رہی، وہیں بلدیاتی انتخابات میں شہر کی پختون آبادیوں میں جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی یہ ووٹ لینے میں بڑی حد تک کامیاب رہی۔ یوں اے این پی یونین کونسل کی سطح پر ایک بھی سیٹ جیتنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔
کراچی کے سیاسی کارکنوں کے ساتھ بات چیت کرنے سے یہ اندازہ ہوا کہ ملک کی طرح شہر کی پختون قوم پرست سیاست بھی بحران کا شکار ہے جو اپنے رہنمائوں سے یہ سوال کر رہی ہے کہ چارسدہ اور گلستان کے سیاسی خاندانوں کی توجہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی پارلیمانی سیاست پر مرکوز ہے اور وہ کراچی کے پختونوں کو صرف نعرے بازی اور سٹریٹ پاور کے لئے استعمال کرتی آ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی کا پختون ووٹ بنک اب جماعت اسلامی، پی پی پی اور پی ٹی آئی جیسی قومی سطح کی جماعتوں کو ترجیح دے رہا ہے۔