پاکستان کے الیکشن میں انتخابی نشان اتنا اہم کیوں ہوتا ہے؟

انتخابی نشان کا چھن جانا پی ٹی آئی کے لیے عام انتخابات میں بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ دیہی علاقوں میں رہنے والے ووٹرز کئی انتخابی نشانات دیکھ کا الجھن کا شکار ہوں گے اور ان کے لیے بیلٹ پیپر پر موجود امیدواروں میں سے پی ٹی آئی کا امیدوار تلاش کرنا مشکل ہو جائے گا۔

07:46 PM, 25 Jan, 2024

ضیغم خان
Read more!

پاکستان میں انتخابی سیزن کے دوران ایک غیر موجود انتخابی نشان خبروں اور تبصروں پر چھایا ہوا ہے۔ جنوبی ایشیائی ملک پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعتوں میں سے ایک پاکستان تحریک انصاف آئندہ انتخابات میں اپنے انتخابی نشان بلّے کے بغیر حصہ لینے جا رہی ہے۔ پی ٹی آئی سے انتخابی نشان واپس لینے کا فیصلہ الیکشن کمیشن کا تھا جو پاکستان میں انتخابات منعقد کروانے کے لیے بنایا گیا آئینی ادارہ ہے۔

یہ فیصلہ ممکنہ طور پر پی ٹی آئی کی سیاست پر برا اثر ڈالے گا جس نے 2018 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد مرکز میں حکومت بنائی تھی اور دو صوبوں میں بھی کامیابی حاصل کی تھی۔

کرکٹ پاکستان کے ساتھ ساتھ پورے جنوبی ایشیا میں سب سے مقبول کھیل ہے اور کرکٹرز کو پورے خطے میں دیوتاؤں جیسا درجہ دیا جاتا ہے۔  پی ٹی آئی کے لیے کرکٹ اور بھی زیادہ اہم ہے کیونکہ پارٹی کے رہنما عمران خان سیاست میں آنے سے پہلے ایک سٹار کرکٹر رہے ہیں۔ عمران خان پاکستان کی اس قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے جس نے 1992 میں کرکٹ ورلڈ کپ میں فتح حاصل کی تھی۔ اس کامیابی کو ملک کی کھیلوں کی تاریخ میں اہم واقعے کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف اپنے آئین کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات کروانے میں ناکام رہی جس کی بنیاد پر الیکشن کمیشن نے اس سے انتخابی نشان واپس لے لیا۔ پاکستان کی سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو برقرار رکھا، جسے بیش تر مبصرین حد سے زیادہ سخت اور غیر متناسب فیصلہ سمجھتے ہیں۔  پی ٹی آئی پر اس فیصلے کے گہرے اثرات مرتب ہوئے؛ نا صرف پی ٹی آئی سے بلے کا انتخابی نشان واپس لے لیا گیا، بلکہ اسے بطور پارٹی کوئی بھی متبادل انتخابی نشان منتخب کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے۔

اس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کا ہر امیدوار مختلف انتخابی نشان کے ساتھ الیکشن لڑنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی، بلکہ پی ٹی آئی کے بہت سے امیدواروں کو ایسے انتخابی نشان دیے گئے ہیں جو توہین آمیز سمجھے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر پی ٹی آئی کے اس امیدوار کو بوتل کا انتخابی نشان دیا گیا ہے جس پر ماضی میں شراب کی بوتل ساتھ رکھنے کا الزام لگا تھا۔ شراب کی بوتل رکھنا پاکستان میں جرم شمار ہوتا ہے۔ اس قسم کے دیگر انتخابی نشان بینگن، مرغی، جوتا وغیرہ ہیں۔

جمہوری علامتیں

پاکستان میں چونکہ ناخواندگی کی شرح خاصی بلند ہے اس وجہ سے انتخابی نشان کے ذریعے ووٹرز کو بیلٹ پیپر پہ اپنے پسندیدہ امیدوار اور سیاسی جماعت کو پہچاننے میں بہت مدد ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات سے پہلے سے ہی سیاسی جماعتیں اور ان کے امیدوار اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ووٹرز ان کے انتخابی نشان کو پہچان لیں۔

چونکہ انتخابی نشان کسی برانڈ کی علامت کے طور پر کام کرتا ہے، اس لیے ہر پارٹی اپنے انتخابی نشان کو معنویت دینے اور ووٹرز کو اس کے گرد جمع کرنے کے لیے خوب پیسہ لگاتی ہے جس میں انتخابی نشان کو نمایاں کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے نغمے بنائے جاتے ہیں، نعرے تخلیق کیے جاتے ہیں اور جگہ جگہ انتخابی نشان کی تشہیر کی جاتی ہے تاکہ لوگ اسے دیکھیں اور پہچانیں۔ عام آدمی یہ خیال کرتا ہے کہ انتخابی نشان پارٹی کے منشور کو ظاہر کرتا ہے اور پارٹی کے نکتہ نظر کی ترجمانی کرتا ہے۔

پاکستان اور بھارت میں الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کو اجازت نہیں دیتے کہ وہ اپنے انتخابی نشان خود سے ڈیزائن کر سکیں۔ سیاسی جماعتوں کو الیکشن کمیشن کے پاس موجود انتخابی نشانات کی فہرست میں سے ہی کوئی نشان منتخب کرنا ہوتا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس اس وقت 3 سو انتخابی نشانات پر مشتمل فہرست موجود ہے جن میں شیر، عقاب اور سارس جیسے جانوروں جبکہ تیر، تلوار اور لیمپ جیسی اشیا والے انتخابی نشان شامل ہیں۔

ایک بار جب کوئی سیاسی جماعت اس فہرست میں سے اپنی پسند کا نشان منتخب کر لیتی ہے تو یہ نشان اس پارٹی کے لیے 'مخصوص' ہو جاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں سے بچ جانے والے انتخابی نشان آزاد امیدواروں کو دیے جاتے ہیں اور ضلع کی سطح پر یہ ذمہ داری الیکشن آفیسرز انجام دیتے ہیں۔ قانونی طور پر الیکشن آفیسرز انتخابی نشان کے لیے آزاد امیدواروں کی ترجیحات پر غور کرنے کے پابند نہیں ہیں۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

ریٹرننگ افسران کہلانے والے یہ حکام اپنے اختیارات کے استعمال میں آزاد ہیں، بھلے اس سے آزاد امیدواروں کا نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ اگرچہ ان کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق موجود ہے مگر اس سے حلقے میں انتخاب التوا کا شکار ہو سکتا ہے۔ امیدوار اکثر ہچکچاتے ہوئے اس قسم کے مبہم یا غیر مقبول انتخابی نشان قبول کر لیتے ہیں اگرچہ اس نشان کی وجہ سے انہیں کم ووٹ پڑنے کا خدشہ ہوتا ہے۔

ایک بھرپور تاریخ

انتخابی نشان پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نہایت اہم حیثیت رکھتے ہیں۔ 1970 میں پاکستان میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلے کثیر الجماعتی انتخابات منعقد ہوئے تھے۔ ان انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان میں کامیابی حاصل کی تھی جبکہ عوامی لیگ مشرقی پاکستان میں کامیاب ہوئی تھی جو اب بنگلہ دیش بن چکا ہے۔

پیپلز پارٹی نے اپنے لیے انتخابی نشان تلوار منتخب کیا جس کی پارٹی کے رہنما ذوالفقار علی بھٹو کے نام کے ساتھ گہری مطابقت تھی کیونکہ ان کے نام کا مطلب ہے 'علیؓ کی تلوار'۔ حضرت علیؓ مسلمانوں کے لیے قابل احترام ہستی ہیں۔

عوامی لیگ جو مشرقی پاکستان کی نمائندگی کر رہی تھی اس نے کشتی کا انتخابی نشان منتخب کیا۔ ایسا خطہ جس میں کشتی روزمرہ زندگی اور معاش کا لازمی حصہ ہوتی ہے، وہاں کشتی کو نمایاں ثقافتی اہمیت حاصل ہے اور یہ امید اور بقا کی علامت شمار ہوتی ہے۔ کشتی کا نشان پارٹی کے اس وژن کو ظاہر کرتا تھا جو زیادہ خود مختاری اور حقوق کی طرف سفر پر مبنی تھا۔

1977 میں 9 سیاسی جماعتوں پر مشتمل اتحاد پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے) نے اپنے انتخابی نشان کے طور پر ہل کا انتخاب کیا۔ بنیادی طور پر اس کا مقصد ایک زرعی ملک میں موجود بڑے کسان طبقے سے تعلق بنانا تھا۔ ہل کا انتخابی نشان ترقی اور خوشحالی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور یہ سیاسی اتحاد کے معاشی ترقی اور سماجی بہتری کے وعدے کے ساتھ گہری مطابقت رکھتا تھا۔ سیاسی اتحاد میں شامل پارٹی رہنماؤں نے بھی انتخابی نشان پر زور دیتے ہوئے اسے معاشرے پر پڑنے والے مغربی کلچر کے ناخوشگوار اثرات کو اکھاڑ پھینکنے کی علامت قرار دیا۔

1988 میں جمہوریت کی بحالی کے بعد پیپلز پارٹی کو اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کی صورت میں ایک نئے اتحاد کا سامنا کرنا پڑا جس نے انتخابی نشان کے طور پر سائیکل کا انتخاب کیا۔ سائیکل چونکہ نقل و حمل کا عام اور عملی ذریعہ تھا، اس طرح اس انتخابی نشان کے ذریعے اسلامی جمہوری اتحاد کے عام آدمی سے جڑنے کا تاثر ملا۔

قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے جب پیپلز پارٹی نے تیر کو اپنا انتخابی نشان بنایا تو اس کے باوجود انہوں نے دو مختلف جماعتیں رجسٹر کروا کر اپنا پرانا انتخابی نشان تلوار بھی اپنے پاس رکھا۔ پیپلز پارٹی کے پہلے انتخابی نشان تلوار کی مانند تیر بھی ایک ہتھیار ہے جس سے توانائی، تحریک اور ترقی کا پیغام ملتا ہے۔ نئے انتخابی نشان نے بے نظیر بھٹو کی قیادت میں پارٹی میں آنے والی تبدیلی کو ظاہر کیا جو اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی موت اور مارشل لاء کے خاتمے کے بعد دو مرتبہ ملک کی وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہوئیں۔

جب آئی جے آئی نامی سیاسی اتحاد تحلیل ہوا تو مسلم لیگ نواز ایک بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری اور اس نے شیر کو اپنا انتخابی نشان بنا لیا۔ شیر کو جنوبی ایشیا میں گہری ثقافتی اہمیت حاصل ہے کیونکہ اسے طاقت اور بہادری کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ مسلم لیگ ن نے اپنے انتخابی نشان کو استعمال کرتے ہوئے ووٹرز کے ساتھ گہرا جذباتی رشتہ قائم کر لیا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف اپنے لیڈر کی ذاتی تاریخ کی عکاسی کرتے ہوئے بلّے کو اپنا انتخابی نشان بنا کر سیاسی میدان میں اتری۔ انتخابی نشان بلّے کو روایتی سیاسی جماعتوں کے لیے ایک چیلنج کے طور پر پیش کیا گیا اور کھیلوں کو پسند کرنے والے نوجوانوں نے اس میں کشش محسوس کی۔ کرکٹ بیٹ کو ٹیم ورک، سپورٹس مین شپ اور انصاف پسندی سے جوڑا جا سکتا ہے۔

پی ٹی آئی کے لیے دھچکا

انتخابی نشان کا چھن جانا پی ٹی آئی کے لیے عام انتخابات میں بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ دیہی علاقوں میں رہنے والے ووٹرز کئی انتخابی نشانات دیکھ کا الجھن کا شکار ہوں گے اور ان کے لیے بیلٹ پیپر پر موجود امیدواروں میں سے پی ٹی آئی کا امیدوار تلاش کرنا مشکل ہو جائے گا۔

ووٹ ڈالتے ہوئے انہیں پی ٹی آئی کے قومی اور صوبائی حلقوں کے امیدواروں کے لیے الگ الگ نشان پر مہر لگانا ہو گی۔ بعض حلقوں میں حریف جماعتیں جان بوجھ کر ملتے جلتے ناموں اور انتخابی نشانات کے ساتھ اپنے امیدوار میدان میں اتار رہی ہیں تاکہ پی ٹی آئی کے حامیوں کو مزید الجھایا جا سکے۔ تسلیم شدہ انتخابی نشان کی غیر موجودگی ووٹرز کو متحرک کرنے کی پی ٹی آئی کی کوششوں کی راہ میں بھی رکاوٹ ہے۔

سابق کرکٹ سٹار اور سماجی کارکن کے طور پر عمران خان برانڈنگ کے ماہر ہیں۔ ان کی رہنمائی میں پی ٹی آئی نے نغموں، نعروں اور تصویروں کے ذریعے اپنے انتخابی نشان کو مضبوط برانڈ کی شناخت دینے میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ اس نقصان سے پی ٹی آئی کی انتخابی مہم کا اثر کمزور پڑ جائے گا۔ لیکن عمران خان خود جیل میں ہیں اور متعدد مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان مقدمات کے بارے میں ان کا مؤقف ہے کہ یہ سیاسی مقاصد کے لیے بنائے گئے ہیں۔

انتخابی نشان چھن جانے کی وجہ سے پی ٹی آئی کو انتخابات کے بعد بھی کئی چیلنجز درپیش ہوں گے۔ پاکستان کا آئین کسی پارٹی سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں کو فلور کراسنگ یعنی کسی دوسری پارٹی میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔ آئین حکم دیتا ہے کہ اراکین قیادت کے انتخاب اور عدم اعتماد کی تحریکوں سمیت اہم معاملات میں پارٹی لائن کے مطابق ووٹ دیں گے۔

آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کسی بھی پارٹی میں جانے کے لیے آزاد ہوں گے یا وہ نئے سیاسی گروہ بنا لیں گے جس کے بعد وہ اپنی وفاداریاں تبدیل کر لیں گے جسے برصغیر میں ہارس ٹریڈنگ کہا جاتا ہے۔

پاکستان کی طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ محاذ آرائی میں پی ٹی آئی کو بے مثال نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ ایسا چیلنج ہے جس کا بہت سی دوسری جماعتیں بھی سامنا کر چکی ہیں۔ اگرچہ پی ٹی آئی ممکنہ طور پر ایک بڑی سیاسی قوت کے طور پر موجود رہے گی تاہم اوپر بیان کیے گئے حالات کی وجہ سے آئندہ انتخابات میں اس کے انتخابی امکانات واضح طور پر معدوم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔

**

معروف تجزیہ کار ضیغم خان کا یہ مضمون ترک ڈیجیٹل پلیٹ فارم TRT World میں شائع ہوا جسے نیا دور قارئین کے لیے اردو ترجمہ کیا گیا ہے۔

مزیدخبریں