عمارت کے اندر جانے کے لئے باہر قطاریں تھیں، لوگوں کی بے چینی تھی کہ کیسے جلد از جلد اندر پہنچ کر گرمی سے بچا جاسکے، ہر عمر کے بچے اس گرمی کی شدت سے بے نیاز اپنی حیرت بھری نظروں سے آنے والوں کو تک رہے تھے، ننھے بچے ماؤں کی گود کی پناہ میں سو رہے تھے، رو رہے تھے، امریکہ کی بہت سی ریاستوں کے لوگ جوق در جوق چلے آ رہے تھے۔
سب کے ذہنوں اور لبوں پر اپنے مادر وطن کے روشن مستقبل کی خواہشات جگمگا رہی تھیں، انہیں اس امر کا یقین تھا کہ آج ہی وہ دن ہے جب انہیں برسوں بعد کچھ وہ سننے کو ملے گا جس کی ان کو تمنا ہے، انہیں ایک انجانا سا یقین اس صحرائی گرمی اور چلچلاتی دھوپ میں کھینچ لایا تھا، انہیں اس کا بھی یقین تھا کہ انہیں پہلی بار ایک بڑے پیمانے پر مادر وطن کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کا لائحہ عمل دیا جائے گا، وہ اس پر بھی قائل تھے کہ ان کا یہ اجتماع اس لئے نہیں ہو رہا کہ ان سے ”قرض اتارو، ملک سنوارو“ کی دہائی سننے کو ملے گی بلکہ انہیں عملی طور پر ملک سنوارنے کا خوش کن پیغام ملے گا۔
اور جب وہ اسٹیج پر آیا، لگا کہ ہزاروں جگنو عمارت کے کونے کونے میں جگمگا اٹھے، جیسے آسمان کے ستارے زمین پر اتر کر مستقبل کی چمک پھیلا گئے۔ ”ایاک نعبدو وایا کا نستعین“ اور ہزاروں کے مجمعے نے ایک ساتھ کھڑے ہو کر اس کا ستقبال کیا، یہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کا جلسہ تھا جو امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن کے کیپیٹل ون ارینا میں ہوا تھا۔
https://www.youtube.com/watch?v=4Y8NrKU57s0
عمران خان کا چہرہ چمک رہا تھا، اعتماد کی توانائی ان کے وجود سے ظاہر تھی۔ ان کی تقریر کے دوران کبھی تالیاں بجتیں، کبھی نوجوان خوشی سے رقص کرنے لگتے، پاکستان کے جھنڈے جگہ جگہ لوگ لئے لہراتے، نعرے بھی لگے اور اورینا کے دائیں طرف اوپر کے انکلوژر سے احتجاجی آوازیں بھی بلند ہوتیں، یہ حزب اختلاف کی جماعتوں کے حمایتی تھے جو ”گو عمران گو“ کے نعرے لگاتے ہاتھوں کے اشاروں سے انکی ناکامی کی خواہش کا اظہار کر رہے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ سیکیورٹی فوری طور پر انہیں خاموش کرادیتی۔
عمران خان کی چالیس منٹ کی تقریر میں ان تمام خواہشات اور خوابوں نے دم توڑ دیا جس کی تمنا میں ہزاروں لوگ دور دراز کے اور آس پاس کے علاقوں سے آئے تھے۔ ایک صحافی اس تقریر پر یوں تبصرہ کیا ” ہلہ گلہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ تقریر لگتا ہے عمران خان میانوالی کے کسی جلسے میں کر رہے تھے۔“
پاکستانی امریکیوں کو اگر ایک طرف اس تاریخ ساز جلسے کی خوشی بھی ہے تو دوسری طرف کچھ مایوسی بھی۔ اکیسویں صدی کے انیسویں سال تک آتے آتے دنیا کے بیشتر مما لک میں بہت تبدیلیاں آچکی ہیں، لوگ سیاسی طور پر خاصے باشعور ہوچکے ہیں اور خصوصاً امریکہ میں رہنے والے پاکستانی نژاد افراد نے ہر نئی تبدیلی کا نہ صرف مشاہدہ کیا ہے بلکہ ان سے مستفیض بھی ہوئے ہیں، چاہے یہ ٹیکنالوجی کی ترقی ہو، سیاسی امور کی تبدیلیاں ہوں، صحت کے میدان میں ہونے والی روز افزوں تحقیقات اور ان سے عام انسان کے فوائد ہوں یا پھر تعلیمی میدان کی ترقی ہواور یہ سب ترقیات اگر ایک طرف علمی، تحقیقات اور اطلاعات کی مرہون منت ہیں تو دوسری طرف ان کے فروغ میں آزادیء اظہار رائے ہی ہے جس نے دنیا کو ان سے آشنا کرایاہے، یہاں لوگوں کی سوچ اسی نہج سے گذر کر ایک نتیجے پر پہنچتی ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ عمران خان کے دورہ امریکہ پر پاکستانی امریکنوں کا رد عمل کیا رہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دورے سے پاکستانی امریکن کمیونٹی کو خوشی ہے کہ پہلی بار کوئی وزیر اعظم سفارت خانے کی خانقاہ سے باہر نکل کر عام پاکستانی سے مخاطب ہوا، لیکن عام خیال یہی تھا کہ انکی تقریر میں سے کچھ چیزیں غائب تھیں اور یہ جلسہ پاکستان کے کسی علاقے کا منظر پیش کر رہا تھا وہ بھی کسی وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار کا جسے عوامی ووٹ درکار تھے یہ کہیں سے ایسا نہیں لگا کہ ان کا خطاب سیاسی طور پر باشعور افراد سے تھا، انکی تقریر سے وقتی طور پر تو لوگوں کو لطف آیا تاہم جو لوگ توقع کر رہے تھے وہ نہیں کہا گیا مثلاً یہی کہ ورلڈ کپ سے لے کر نمل یونیورسٹی تک کا ہی ذکر رہا، انکی باتوں میں بھی اور انکی فتوحات پر بنائی گئی ویڈیو میں بھی۔اس کے بارے میں لوگ اچھی طرح جانتے ہیں ۔ ملکوں کو چلانے اور تبدیلیاں لانے کے لئے 10 ماہ کم ہیں تاہم مستقبل کے لائحہ عمل کا اعلان اور اس میں پاکستانی امریکی کمیونٹی کی شرکت عملی طور پر کس طرح ہو گی اسکا کوئی شعور نہیں دیا گیا۔