ان سب سوالوں کے حوالے سے ایکسپریس ٹریبیون نے اندر کی کہانی شائع کی ہے۔ اس کہانی میں بہت سے انکشافات کئے گئے ہیں۔ ایکسپریس ٹریبیوں کی اس خبر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ فضل الرحمٰن کے بھائی ضیا الرحمٰن کی بطور ڈپٹی کمشنر ضلع وسطی کراچی تعیناتی فضل الرحمٰن اور آصف علی زرداری کی حالیہ ملاقات میں کی جانے والی خصوصی سفارش کی وجہ سے ہوئی۔
مبینہ طور پر اس ملاقات میں فضل الرحمٰن نے آصف علی زرداری سے درخواست کی کہ خیبر پختونخوا حکومت بر خلاف میرٹ انکے بھائی کو صوبے میں کہیں بھی ڈپٹی کمشنر کی آسامی پر تعینات نہیں کر رہی۔ انکے بھائی جو کہ پراونشل مینجمنٹ سروسز کے گریڈ 19 کے افسر ہیں وہ سندھ میں ڈیپوٹیشن پر ہیں۔ سو فضل الرحمٰن نے کہا کہ ان کے بھائی کو سندھ میں ہی اکاموڈیٹ کردیا جائے۔
اس پر پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے اس درخواست پر عمل کرنے کے لئے کوئی راستہ ڈھونڈنے کی ہدایت کرتے ہوئے معاملہ بھجوا دیا۔ خبر کے مطابق مراد علی شاہ ابتدا میں تو اس معاملے پر تذب ذب کا شکار رہے تاہم انہوں نے صوبائی وزارت قانون اور دیگر ماہرین قانون سے قانونی رائے لینے کے بعد اس سمری کی اجازت دے دی۔
خبر کے مطابق سندھ پراونشل مینجمنٹ سروسز کے افسران اس تعیناتی پر سیخ پا ہیں ۔ ان کے مطابق یہ سندھ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کی خلاف ورزی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ دیگر صوبوں کی صوبائی انتظامیہ کے افراد سندھ میں کام نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے اراکین جلد ہی اس کو چیلنج کریں گے۔
دوسری جانب ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی سندھ کے رہنماؤں نے اس حوالے سے ہر فورم پر بات کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ہر صورت اس تعیناتی کو کالعدم کروا کر ہی رہیں گے۔
دوسری جانب سندھ کے مشیر اطلاعات سید ناصر حسین شاہ نے کہا ہے کہ یہ تعیناتی مکمل طور پر قانونی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ کے پاس اختیا رہے کہ وہ کسی بھی صوبے سے افسران کی تعیناتی حاصل کرسکتے ہیں۔
ساتھ ہی جمیعت علما اسلام ف کے رہنما حافظ حمد اللہ کا کہنا ہے کہ ضیا الرحمٰن ایک قابل افسر ہیں اور میرٹ کے مطابق ان کی تعیناتی کی گئی ہے۔ یہ ایک انتظامی معاملہ ہے جسے سیاسی رہنماؤں اور فضل الرحمٰن سے مت جوڑا جائے۔