مجھے یاد ہے کہ 25 جولائی کے روز ہمیں چینل انتظامیہ کی جانب سے صبح سویرے 6 سپاٹس پر پہنچنے کا حکم دیا گیا تھا۔ جب کہ یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ آج واپسی کا کوئی وقت نہیں ہوگا۔ گو کہ میرا ووٹ میرے آبائی علاقے میں رجسٹرڈ تھا لیکن اس دن کم از کم یہ جوش و خروش تھا کہ ہم لاہور میں الیکشن کی پولنگ کا نہ صرف مشاہدہ کریں گے بلکہ اس کو اپنے چینل کے لئے رپورٹ بھی کریں گے۔
الیکشن کا عمل دیکھنے کی ان امیدوں کو بڑھاوا الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ خصوصی کارڈز نے دیا جس پر مجھے یہ اجازت الیکشن کمیشن کی جانب سے دی گئی تھی کہ میں پولنگ کا عمل، گنتی اور نتائج بنانے کے عمل کو براہ راست دیکھ سکتا ہوں۔
بہر حال مجھے یاد ہے کہ میں اپنی تعیناتی والے حلقے این اے 124 میں 6:30 منٹ پر جا پہنچا۔ یہ گوالمنڈی کا علاقہ تھا۔ مرد پولنگ سٹیشن کے باہر کیمرا مین کیمرا سیٹ اپ کر ہی رہا تھا کہ اسائنمنٹ ڈیسک نے فوری ابتدائی بیپر دینے کا مطالبہ کر دیا۔ میں نے اپنی ہینڈز فری وغیرہ سیٹ کر کے سپاٹ اوکے کیا تو اسی وقت علاقے کا ایس ایچ او اپنی نفری سمیت موقع پر پہنچ گیا۔
اس نے خندہ پیشانی سے بات چیت کی اور کہا کہ آپ اپنا کام جاری رکھیں۔ ابھی بات ہو ہی رہی تھی کہ پولنگ سٹیشن، جو کہ ایک سکول تھا، کے اندر سے دو سکیورٹی اہلکاروں نے جھانکا اور فوری طور پر جگہ خالی کر دینے کا حکم نامہ سنایا۔ میں نے ایس ایچ او کی جانب دیکھا، ساتھ ہی ان اہلکاروں کو وہیں سے بتایا کہ میں کسی قسم کے خلل کا باعث نہیں بن رہا۔ میرے پاس الیکشن کمیشن کا کارڈ ہے، مسئلہ کیا ہے؟ جس پر ان میں سے ایک آگے بڑھا اور کہا، کارڈ وارڈ ہمیں نہ بتاؤ بھائی اور بس جگہ خالی کر دو۔ آرڈر ہے۔
بس جگہ خالی کرنے کا یہ سلسلہ جو شروع ہوا وہ پوری پولنگ کے دوران چلتا رہا۔ اس دوران الیکشن کمیشن کے کارڈ کا حوالہ دے کر بغیر کسی ریکارڈنگ ڈیوائس کے پولنگ سٹیشن کو اندر سے دیکھنا چاہا تو وہاں بھی الیکشن کمیشن کی وقعت کو صفر پایا۔ مجھے آج بھی خشخشی داڑھی والے اس جوان کا چہرہ یاد ہے جس نے مجھے چونا منڈی کے سکول میں قائم ایک پولنگ سٹیشن میں داخلے کے وقت روکا۔ جب میں نے اسے الیکشن کمیشن کی جانب سے اپنا اجازت نامہ دکھایا تو اس نے خفیف سی مسکراہٹ کے بعد کہا ہم اپنے افسر کو جانتے ہیں، الیکشن کمیشن کون؟
اب اپنے ہی چینل کا سن لیں۔ ایگزٹ پول کے تحت جب ہم لوگوں سے یہ پوچھتے کہ کس کو ووٹ دیا ہے، ان میں سے اکثریت ن لیگ کی ہوتی تو دفتر سے فون آ جاتا کہ بیلنس کریں۔ متاثرہ پارٹیوں کے پولنگ ایجنٹ جب رپورٹرز کو اپنی بپتا سنا کر مدد طلب کرتے تو وہ سب شرمندگی کے مارے نہ ہاں کے رہتے نہ ناں کے۔ ن لیگ کے ڈپٹی میئر اور میرے فرائض منصبی کے تحت ملنے والے حلقے میں چیف پولنگ ایجنٹ وسیم قادر کی ایک سکیورٹی اہلکار کے ساتھ اس وقت بحث ہو گئی جب وہ قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پریزائڈنگ آفیسر کے سر پر کھڑا پایا گیا۔ انہوں نے اس معاملے پر مجھ سمیت کئی دیگر رپورٹرز کو اطلاع دی لیکن کسی چینل نے یہ خبر نہ چلائی۔
کئی پولنگ سٹیشنز پر پولنگ کا عمل سست رہا۔ جس کا کوئی جواز نہیں دیا جا سکا تھا۔ اس بارے میں بھی سکرینز آف رہیں۔
دیگر حلقوں میں موجود ساتھی رپورٹرز سے بھی پوچھا تو یہی حال تھا۔ کیا کہنا ہے، کتنا اور کب کہنا ہے، سب کچھ بتایا جا رہا تھا۔ کرتے کرتے پولنگ ٹائم ختم ہو گیا۔ پھر شروع ہوا الیکشن 2018 کا سیاہ ترین حصہ۔ کئی پولنگ سٹیشنز سے پولنگ ایجنٹس کو نکال دیا گیا۔ نتائج کیوں تاخیر سے آ رہے ہیں کسی کو نہیں بتایا جا رہا تھا۔
حلقہ این اے 124 میں تحریک اںصاف اور ن لیگ کے مرکزی انتخابی دفاتر ساتھ ساتھ ہی تھے۔ حلقے کی کوریج کرنے والے رپورٹرز وہاں جمع ہوئے، تاکہ رزلٹ آنے کی صورت میں ایک ساتھ چینلز کو بھیج دیا جائے۔
9 بجے پہلا نتیجہ آیا۔ اور گیارہ بجے تک صرف 20 فیصد پولنگ سٹیشنز کا نتیجہ ہی آ سکا تھا۔ میں اپنے چینل کو نتائج بھیج رہا تھا۔ وہی نتائج چند منٹ بعد سکرین پر فلیش ہو رہے تھے۔ کہ اچانک میرے حلقے کے بارے میں خبر فلیش ہوئی کہ ن لیگ کے حمزہ شہباز وہاں سے جیت چکے ہیں۔ اور ساتھ ہی حلقہ این اے 125 سے یاسمین راشد کی جیت کی خبر بھی چلنے لگی۔
وہاں موجود تمام صحافی مجھے کھا جانے والی نظروں سے گھور رہے تھے۔ حتیٰ کہ الیکشن نتائج دینے والا مبینہ سورس یعنی کہ میں بھی ہکا بکا بیٹھا تھا۔ میں نے دفتر رابطہ کیا تو مجھے بتایا گیا کہ یہ تو اوپر سے آیا ہے۔ میں نے تذبذب کے عالم میں ملحقہ حلقے میں تعینات ساتھی رپورٹر کو فون کیا تو معلوم ہوا کہ وہ لوگوں کے غم و غصے سے بچنے کے لئے ایک پرائیویٹ گاڑی میں بیٹھا ہے۔ کیونکہ جو نتائج چلائے جا رہے ہیں، وہ اس کے بھیجے ہوئے ہی نہیں۔
مگر متاثرین اس کے درپے ہیں۔ بعد ازاں اس حلقے یعنی 125 کے نتیجے کی تصحیح کر دی گئی لیکن یہ غلط والی رپورٹ چلی کیسے، آج تک نہیں پتہ۔ یا کم از کم بتانے کی میں ہمت خود میں نہیں پاتا۔ شاید یہ محض فضا بنانے کے لئے کچھ دیر کو ہی کیا گیا ہو، مگر نتائج میں فضا بنانے کی ضرورت پیش ہی کیوں آئے۔ یہ تو عوام کا فیصلہ ہے، اور جو فیصلہ ہو، اسے ویسے ہی نہ صرف سنانa چاہیے بلکہ قبول بھی کیا جانا چاہیے۔
اسی صورتحال میں پولنگ کو ہوئے 12 گھنٹے گزر گئے۔ لیکن کوئی بھی کچھ نہ کر سکا۔ تمام حلقوں میں لگ بھگ یہی کہانی رہی۔ اور یہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی داستان رہی۔ یوں لگا کہ رہزنوں نے سب کچھ لوٹ لیا۔ آج پھر 25 جولائی آ دھمکا ہے۔ اور وہ درد بھی جو اس دن سے نتھی ہے اور ہر گرزرتے دن کے ساتھ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔