ڈی آئی خان: 3 افراد نے برقعہ پہنے خاتون کو سر عام برہنہ کر کے ویڈیو بنائی اور کپڑے بھی ساتھ لے گئے

10:46 AM, 25 Jul, 2021

نیا دور
ڈیرہ اسماعیل خان میں حیوانیت اور درندگی کا اور واقعے نے انسانیت کے سر شرم سے جھکا دئیے۔ ڈی اآئی خان کے علاقے رکنو میں پیش آنے والے واقعہ نے سانحہ گرہ مٹ ہی بھلا دیا۔

تفصیلات کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان کے نواحی علاقہ رکنو میں تین نوجوانوں نےایک شادی شدہ خاتون کو پکڑ کر سر عام برہنہ کر کے ویڈیو بنائی اور اس کی شلوار بھی ساتھ لے گئے۔

رکنو میں 2 خواتین شادی کا ولیمہ کھا کر واپس گھر جا رہی تھیں کہ راستے میں کھڑے 3 افراد علی رضا اور محسن رضا پسران فتح شیر المعروف کالو اور محمد ثقلین ولد محمد افضل قوم رک نے ایک شادی شدہ لڑکی فروا بی بی زوجہ امداد حسین کو اسلحہ کے نوک پر پکڑ کر اس کو زدوکوب کرکے سرعام گلی میں برہنہ کر کے ویڈیو بنائی اور خاتون کی شلوار بھی ساتھ لے گئے۔

خاتون کا کہنا تھا کہ میں ملزمان کو اللہ رسول کے واسطے دیتی رہی مگر نہ انہوں نے میری سنی اور نہ ہی اہل محلہ کو شرم و حیا آئی۔ خاتون نے بتایا کہ ان کی نہ تو کسی سے کو دشمنی تھی نہ ہی کسی سے کسی قسم کے اختلافات تھے۔ میری سرعام عزت برباد کی گئی۔

متاثرہ خاتون کے بھائی نے بتایا کہ واقعہ کے فوری بعد ہم نے پولیس کو اطلاع کی اور نامزد ملزمان کے خلاف ایف آئی آر بھی ہوئی جس میں لڑکی کے بیان بھی لیے گئے اور موقع پر ایک گواہ اخلاق حسین ولد ملک الہی بخش کے بیان بھی لئے گئے۔ پولیس نے بالخصوص ایس ایچ او اصغر نے رپورٹ توڑ مروڈ کر بنائی اور بااثر ملزمان جن کو مقامی سیاسی شخصیات جن میں چیئرمین الہی بخش، ملک منور، صوبیدار ماسٹر شامل ہیں کی مکمل پشت پنائی حاصل ہے کی وجہ سے تھانہ ڈیرہ ٹاون کے ایس ایچ او اصغر نے ایف آئی آر میں دفعہ 354 اے کے بجائے صرف 354 لگایا ہے جس سے ملزمان کو فائدہ پہنچایا گیا ہے۔



پولیس نے فرضی طور پر ملزمان کو گرفتار کیا مگر ملزمان بااثر ہونے کی وجہ سے پولیس اور مقامی شخصیات ملی بگھت سے ملزمان 2 دن میں جیل سے رہا ہو کر بھرپور ریلی کی شکل میں گاؤں آئے، اور جشن منایا گیا اور اب ملزمان سرعام گلیوں میں دندناتے پھر رہے ہیں۔ متاثرہ خاتون کے بھائی نے بتایا کہ ملزمان نے میرے اوپر فائرنگ کی جس کی ایف آئی ردج کروانے گیا تو پولیس نے الٹا مجھے تھانے بٹھا دیا۔ یہ کیسا قانون ہے کہ جہاں انصاف لینے کے بجائے زلیل و خوار ہونا پڑتا ہے۔

متاثرہ خاتون اور اس کے خاندان کا کہنا تھا کہ ہماری چیف جسٹس آف پاکستان، صدر و وزیراعظم پاکستان، آرمی چیف، چیئرمین پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن، انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں، گورنر و وزیراعلی اور آئی جی پی خیبرپختونخواہ سمیت تمام اعلی ارباب اختیار سے التماس ہے کہ سانحہ رکنو کا فوری نوٹس لیا جائے ہمیں فوری انصاف فراہم کیا جائے، نامزد ملزمان اور ان کی پشت پنائی کرنے والے مقامی افراد بالخصوص ایس ایچ او اصغر کے خلاف فوری ایکشن لیا جائے۔

دوسری جانب لڑکوں کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ہم غریب لوگ ہیں ہمارے بچوں کو غلط الزام میں پھنسایا جارہا ہے۔ انہوں نے بھی حکومت سے اپیل کی ہے کہ ہمیں انصاف دیا جائے۔
مزیدخبریں