پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ فیصلے پر دونوں فریقوں اور قوم کے اعتماد کو برقرار رکھنے کے لئے فل کورٹ کی تجویز دی تھی۔ اس بنچ کا دیا جانے والا فیصلہ ایک جانبدارانہ فیصلہ تصور کیا جائے گا۔ تین ججوں کے ماضی میں فیصلوں کی وجہ سے ان کے ذہنی میلان کا اندازہ لگ رہا تھا۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ہمارے وکیلوں نے اس موقف کی بنیاد پر عدالت عظمیٰ کے سامنے بھرپور طریقے سے آئین اور قانون کے مطابق بنچ کو مشورہ دیا لیکن عدلیہ نے ہمارے مطالبے پر غور کرنے اور قبول کرنے کے بجائے مسترد کر دیا ہے اور فیصلہ اب 3 ججوں پر مشتمل بنچ ہی کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اس بنچ کے سامنے پیش نہیں ہوں گے۔ ہم عدلیہ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہیں اگر فل کورٹ نہیں بنایا جاتا۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان آج تک 2017ء کے وزیراعظم نواز شریف کو عدالتی فیصلہ کے ذریعہ نااہل کرنے کے سیاسی اور معاشی اثرات بھگت رہا ہے اور آج فل کورٹ نہ بنانے کے عدالتی فیصلے نے ملک میں ایک نئے سیاسی بحران کی بنیاد رکھ دی ہے جس کے معاشی اثرات کی ذمہ داری بھی کیا عدلیہ قبول کرے گی؟
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فل بینچ سے سماعت کا مطالبہ کرنے کا مقصد یہ تھا کہ عدلیہ کے حوالے سے کسی قسم کا تنازعہ پیدا نہ ہو اور سب فریقین کے لیے یہ فیصلہ حتمی ہو گا۔ تاہم حیرت ہے کہ سپریم کورٹ کے 3 جج صاحبان نے یہ مناسب نہیں سمجھا کہ ان کے دیگر جج ساتھی اس مقدمہ کی سماعت میں شریک ہو سکیں۔