وطن سے جذبہ محبت میں سرشار لوگ اس تصور پر ہی جھوم جاتے ہیں۔ ان کے دل پر یہ خیال ٹھنڈی پھوار کی طرح گرنے لگتا ہے کہ پاکستان کو خود مختار ہوتا دیکھ کر دشمنوں کو اور شریکوں کو کیسے آگ لگے گی۔ اسی طرح کے متعدد وعدے کئی دہائیوں سے پاکستان سے محبت کرنے والوں کے جذبات سے کھیل رہے ہیں، موجودہ حکمران جماعت جب حزبِ اختلاف میں تھی تو انہوں نے بھی اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالا اور وہ سب معصوم انقلاب پسند پھر وجد میں آ گئے، انہیں یقین ہو گیا کہ اب وی آئی پی کلچر کا خاتمہ ہونے ولا ہے۔ انہوں نے پروٹوکول کے راستے روکنے شروع کر دئیے، وی آئی پی موومنٹ کے راستے میں ڈٹ کر کھڑے ہو گئے کیونکہ وقت کا سب سے اہم لیڈر کہہ رہا تھا کہ ہم وی آئی پی پروٹوکول کو نہیں مانتے۔
میرٹ کا پہاڑا اونچے سروں میں اتنی بار دہرایا گیا کہ ہر خاص و عام کو سہانے خواب دکھائی دینے لگے۔ لوگوں کو یقین ہو چلا کہ کوئی ان کا حق نہیں چھین سکتا۔ اقرباء پروری اور سفارش کے کلچر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم ایسے مظبوط لہجے میں ہر روز کیا جاتا تھا کہ سب مخلصانِ وطن کو اصلاحات کی شروعات بہت قریب دکھائی دینے لگی۔
مگر کپتان نے اپنی اننگز کے آغاز میں ایسے بہت سارے فیصلے کئے جو دوست نوازی کی علاوہ دوسرے کسی معیار پر نہیں اترتے تھے۔ دو نشستیں جیتنے والے امیدواروں کی خالی کی گئی نشستوں پر پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو اپنے گھروں کے علاوہ کوئی نمائندہ نہیں ملا۔ پاکستان تحریک انصاف کی یہ روش بھی جاری ہے مگراس سب کے باوجود ابھی تک خواب دیکھنے والوں کو کپتان سے امید ہے کہ وہ نیا پاکستان ضرور بنائیں گے۔
چند ہفتے قبل موسمیات کی وزیر زرتاج گل وزیر کی بہن کو ایک تدریسی ادارے سے ڈیپوٹیشن پر انسداد دہشت گردی کے ادارے میں ڈائریکٹر لگانے کا نوٹیفیکیشن پاکستان تحریک انصاف کے میرٹ پر عمل کرنے اور اقربا پروری نہ کرنے کے بلند و بانگ نعروں پر ایک بار پھر عوام کا اعتماد متزلزل کرنے لگا۔ جب یہ معاملہ میں نے سوشل میڈیا پر اٹھایا تو سابق وفاقی وزیر نے دفاع میں آکر کہا کہ نیکٹا میں ڈائریکٹر کوئی اہم عہدہ نہیں ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ سیاستدانوں کے خلاف ایسے پروپیگنڈا کرنا فیشن ہے۔ اگلے ایک دن میں اس خبر سے جڑی کئی کہانیاں منظر عام پر آ گئیں جس میں زرتاج گل وزیر صاحبہ کا اپنی بہن شبنم گل کو نیکٹا میں لگانے کا فرمائشی مراسلہ بھی شامل تھا۔
سوشل میڈیا پر ہلڑ دیکھ کر خان صاحب کو اس سارے معاملے پر تادیبی نظر ڈالنی پڑی۔ یہ صرف ایک وزیر اور ان کے فرمائشی مراسلے کا مسئلہ نہیں بلکہ اس طرح کے واقعات کسی بھی سیاسی جماعت کے نظریات اور فعل میں تضاد کی نشاندہی کرتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے ادوار بھی اقرباء پروری کی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں مگر ان جماعتوں نے پاکستان تحریک انصاف کی طرح معاشرتی اصلاحات پر نا تو کبھی وعدے کئے نا ہی کوئی تحریک چلائی۔ اگر کوئی بین السطور وعدے ہوتے بھی ہیں تو بدقسمتی سے اقتدار تک آنے والےسب لوگ یہ وعدے اقتدار کے دروازے پر اتار کر نیا چولا پہن لیتے ہیں۔ نئے پاکستان میں اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہونے والوں نے بھی یہی کیا۔
مشہور اور مفید قول ہے “وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے” مگر موجودہ حکمران جماعت کا یہ سفر اقتدار سے ذرا پہلے ہی شروع ہو گیا۔ انتخابات سے قبل ہی پی ٹی آئی اس قول کی تصویر بن گئی کہ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے۔ اصولوں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے روایتی طور پر انتخابات جیتنے والے تگڑے امیدواروں کو لیفٹ رائٹ سے ہانک کر ٹکٹ دے دیے اور اس کے دفاع میں جواب آیا کہ اقتدار تک آئے بغیر اس ملک میں آپ کچھ بدل نہیں سکتے یہ وضاحتی پرچہ دیکھ کر بہت سے نا چاہتے ہوئے بھی خاموش ہو گئے اور کئی دل سے مان گئے کہ ہم ان روایتی سیاستدانوں کا ساتھ صرف اقتدار حاصل کرنے کے لئے لے رہے ہیں جیسے ہی کپتان کی حکومت بنے گی سب سیٹ ہو جائے گا مگر شومئی قسمت کابینہ کی تشکیل میں زیادہ پرانے روایتی چہروں کو دیکھ کر پی ٹی آئی والے پھر اپ سیٹ سے نظر آئے مگر پارٹی سے امید ابھی بھی باقی تھی۔
پھر آیا رومانوی وعدوں کا مرحلہ اور سب سے پہلا لٹمس ٹیسٹ بنا وی آئی پی پروٹوکول کا معاملہ، اس معاملے کی توجہیات پر ایسا ایسا سیاسی لطیفہ پی ٹی آئی کے ترجمان بیان کرتے نظر آئے کہ لوگ خود ہی تنگ آ کر چپ ہو گئے۔ کپتان سے لے کر کپتان کے بارہویں کھلاڑی بزدار تک سب ہی وی آئی پی پروٹوکول میں پھلنے پھولنے لگے۔ اس کے بعد آیا مشیر نہ رکھنے کا معاملہ مگر حکومت میں آئے بغیر کیسے معلوم ہو سکتا تھا کہ مشیر کتنے اہم ہیں! خان صاحب کو اپنے اندازے غلط ہونے کا ادراک ہو چکا تھا مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حسن اتفاق تھا کہ زیادہ تر مشیر انہوں نے اپنے ذاتی دوست اور وفادار چنے، تھا تو یہ روایتی فارمولا مگرکیونکہ کپتان کا فیصلہ تھا اس لئے ناقدین کو تند و تیز حملوں سے خاموش کرا دیا گیا۔
ٹیم کا اعلان ہونے کے بعد مشکل ترین مرحلہ معاشی انقلاب کا وعدہ وفا کرنے کا تھا مگر ہماری بری قسمت کہ وہ وعدہ پورا تو خیر کیا ہوتا اس بیماری کے علاج کا طریقہ مزید تکلیف میں ڈھونڈنے کا اعلان ہوا اور یکے بعد دیگرے مہنگائی کے وار ہونے لگے۔ اس سارے قصے میں ایک چیز جس نے ترقی کی وہ ڈالر کا ریٹ تھا، معاشیات اور کشکول پیچیدہ موضوع ہے اس پر دو جملوں میں بات کرنا مشکل ہے۔ مگر کپتان کے ہاں جب یہ طے پایا کہ کچھ سخت فیصلے کرنے ہوں گے تو سب اس کا دفاع کرنے لگے۔ ان فیصلوں کے بعد کا منظر سب کو ہی دھندلا دکھائی دیتا ہے۔ دیکھیے ان سخت فیصلوں کے اُس پار ہمارے سنہرے دور کا آغاز ہے کہ نہیں ۔
کرپشن کے خاتمے کا وعدہ محدود ہو کر مخصوص دائرے میں چکر کاٹنے لگا۔ ملک میں ہر سطح پر ہونے کرپشن کے خاتمے کے لئے جو لوگ پر امید تھے وہ پھر مایوس ہونے لگے۔ انہیں رشوت کے کلچر کے خاتمے کی جو امید تھی وہ ذرا معدوم ہونے لگی ہے۔
خان صاحب کی طرف سے کئے گئے اقربا پروری سے نجات اور میرٹ کے اطلاق سے لے کر پولیس اصلاحات اور پولیس میں سیاسی مداخلت کا خاتمہ سب وعدے ابھی ختم نہیں ہوئے کیونکہ ابھی نئے پاکستان کے پاس اقتدار کے تین سال باقی ہیں۔ وہ سب دیوانے جن کو نئے پاکستان میں سماجی انصاف اور مساوات کا بول بالا دکھائی دے رہا تھا وہ ابھی بھی پر امید ہیں کہ ان کے ساتھ کئے گئے وعدے وفا ہوں گے۔ وہ ابھی بھی بضد ہیں کہ نیا پاکستان کپتان ہی بناۓ گا۔ میرے نزدیک صرف یہ بات وضاحت طلب ہے کہ کیا پرانے پاکستان کو مکمل تباہ کر کے نیا پاکستان بنے گا یا اسی ڈھانچے میں مرمت کی جائے گی۔ اگر ٹاک شوز اور سوشل میڈیا پر نظر ڈالیں تو کپتان کے ساتھ جڑی امیدیں ابھی بھی مجھے جان دار نظر آتی ہیں، معاشی اصلاحات کا سفر تو ابھی طویل نظر آتا ہے مگر وہ وعدے جو خان صاحب نے معاشرتی اصلاحات کے لئے کئے تھے ان کو پورا کرنے کی طرف انہیں توجہ دینی چاہئے اور کم از کم اس تبدیلی کا آغاز اپنی جماعت کے مرکزی رہنماؤں کے قول و فعل کے تضاد کو ختم کرکے کرنا چاہیے۔