قومی اسمبلی کے بجٹ سیشن میں اظہار خیال کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے جنرل سیکریٹری کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ اگر دفاع کا پہیہ ٹریکٹر کی طرح بڑا جبکہ تعلیم، صحت، انسانی تحفظ کا پہیہ چنگچی کی طرح چھوٹا رہے گا تو ایسا عدم توازن پیدا ہوگا جسے کوئی نہیں بچا سکے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی معیشت کی اس قدر زبوں حالی کا شکار ہوچکی ہے کہ خطے کی صورتحال پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہمیں معاشی منظر نامے سے قومی سلامتی کے مسائل لاحق ہوچکے ہیں۔ لہٰذا اس معیشت کو دوبارہ نمو میں لانے اور اقتصادی انجن چلانے کے لیے فوری طور پر قومی لائحہ عمل کی ضرورت ہے کیوں کہ کوئی فرد واحد کا ادارہ اس معیشت کو دوبارہ ڈگر پر نہیں لاسکتا اس کے لیے قومی یکجہتی اور کاوشوں کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اختلاف کے ساتھ مسابقت کرتے ہوئے اشتراک کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے لیکن اگر ہم انتشار کرتے جائیں گے اور تقسیم ہوتے جائیں گے تو ہمیں دشمن کی تباہی کی ضرورت نہیں پڑے گی کیوں کہ ہم خود اپنے ہاتھوں تباہی کا سامان پیدا کررہے ہیں۔ حکومت کو اقتدار میں آئے 2 سال ہوگئے اور اندازہ ہورہا ہے کہاں جارہی ہے، آئی ایم ایف نے تسلیم کیا ہے کہ پاکستان کی معیشت ساڑھے 5 فیصد کی رفتار سے ترقی کررہی تھی اور ہمارے 5 سالہ دورِ اقتدار میں ہر سال مجموعی ملکی پیداوار گذشتہ سال سے بڑھی، ترقی کا ایک تسلسل تھا جو ہم نے قائم کیا لیکن گذشتہ 2 سال سے یہ جی ڈی پی کریش کررہی ہے۔
احسن اقبال نے کہا کہ ہمیں اس معیشت کو سنبھالنے اور اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں 5 سال کا عرصہ لگا، آپ نے صرف 6 ماہ میں اسے فریکچر کردیا۔
انہوں نے کہا کہ حکومتی اراکین کہتے ہیں کہ ہمیں 2 سال ہوئے ہیں حکومت میں آئے ہوئے ہم کیا کریں لیکن میں ان کو بتا دوں کہ تعمیر اور تخریب میں فرق ہوتا ہے۔ یہ کہتے تھے کہ یہ معیشت دیوالیہ تھی لیکن جنوری 2018 میں عالمی بینک نے جنوبی ایشیا کی معیشت کی ترقی کے حوالے سے جو پیش گوئی کی اس میں پاکستانی معیشت کی شرح نمو 20-2019 میں 6 فیصد رہنے کا امکان ظاہر کیا تھا۔
احسن اقبال نے سوال کیا کہ کیا عالمی بینک کو نہیں معلوم تھا کہ ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ خسارا کتنا ہے؟ کیا عالمی بینک ہمارے قرضوں سے ناواقف تھے وہ 6 فیصد شرح نمو کی پیش گوئی کس طرح کررہے تھے کیوں کہ اس ترقی کے پس پردہ ایک جذبہ تھا۔
رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ معیشت اعداد و شمار سے نہیں چلتی اس کے لیے جذبہ اور اعتماد چاہیے ہوتا ہے اور پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) ایسا تحفہ تھا جو صدیوں میں کسی قوم کو ملتا ہے اس کے نتیجے میں پاکستان کا مارکیٹ سینٹمنٹ مثبت ہوا جس نے پوری دنیا کے سرمایہ کاروں کو متوجہ کیا۔
احسن اقبال نے کہا کہ میں وزیر منصوبہ بندی تھا پوری دنیا کے سفیر آکر کہتے تھے کہ ہم کس طرح سی پیک میں شامل ہوسکتے ہیں کیوں کہ پاکستان ایک مقناطیس بن گیا تھا اور دنیا کے سرمایہ کار قرض دینے نہیں سرمایہ کاری کے لیے آنا چاہتا تھا۔ لیکن اس جذبے کو اس طرح توڑا کہ ہمارے وزیراعظم نے دنیا بھر کی انویسٹمنٹ کانفرنسز میں کہا کہ ہم دیوالیہ ہوگئے، ہماری معیشت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی تو بتائیں کہ جب گھر کا سربراہ کہے کہ ہم دیوالیہ ہوگئے اس کے ساتھ کون کام کرے گا۔
بجٹ پر بات کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ ایک بجٹ میں سب سے پہلا معیار اس کا حجم ہوتا ہے اور موجودہ بجٹ میں یہ بات باعثِ شرم ہے کہ پہلی سطر میں لکھا ہے کہ بجٹ کا حجم گذشتہ برس کے تخمینے سے 11 فیصد کم ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ کسی بجٹ کا ٹوٹل آؤٹ لے گذشتہ برس سے سکڑا ہے جبکہ آبادی 2.4 فیصد سے بڑھ رہی ہے۔
ریونیو کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ برس کے بجٹ میں 5 ہزار 555 ارب روپے کا ہدف تھا جس کے مقابلے میں صرف 3 ہزار 908 ارب روپے اکٹھا ہوئے اور آئندہ سال کے لیے 4 ہزار 963 ارب روپے رکھ دیے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے گذشتہ برس بھی کہا تھا کہ یہ ہدف غیر حقیقی ہے اس کا حصول نا ممکن ہے اور ہماری پچھلے بجٹ کی ہر تقریر حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی اور حکومت کے دعوے غلط ثابت ہوئے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے شرح نمو 2 فیصد رہنے کا امکان ظاہر کیا ہے لیکن آئی ایم ایف نے اسے کم کر کے ایک فیصد کر دیا لیکن مجھے ایک فیصد شرح نمو حاصل کرنے پر بھی شبہ ہے اور اگلے سال زیادہ سے زیادہ یہ صفر یا 0.5 فیصد تک شرح نمو حاصل کرسکیں گے۔
احسن اقبال نے مزید کہا کہ حکومتی اخراجات بے قابو ہیں موجودہ اخراجات پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہیں، حکومت اخراجات پر قابو نہیں پاسکی، ٹیکس ریونیو اکٹھا نہیں کرسکی تاریخ کے سب سے بڑے خسارے میں معیشت اور ماہرین کے مطابق اس سال خسارہ جی ڈی پی کا 10 فیصد ہونے والا ہے جو سرخ بتی جلانے کے لیے کافی ہے۔