فائز عیسیٰ کو قتل کی دھمکیاں: مولوی صاحب، ’شریعت‘ آئی تو آپ کے ہم مسلک افراد کا کیا ہوگا؟

03:12 PM, 25 Jun, 2020

علی وارثی
آغا افتخار الدین مرزا نامی ایک شخص جو خود کو عالمِ دین کہلوانا پسند کرتے ہیں، ان کی ایک تازہ ترین ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں یہ صاحب پاکستان کے ایک سابق صدر، ایک سابق وزیر اعظم اور سپریم کورٹ کے ایک حاضر سروس جج جو کہ مستقبل میں چیف جسٹس بھی بنیں گے (انشا اللہ) کو نہ صرف اسرائیل اور بھارت کا ایجنٹ قرار دے رہے ہیں بلکہ ان کے متعلق منبر پر بیٹھ کر بیہودہ گوئی بھی کر رہے ہیں۔ ان صاحب کے الفاظ سنیے:



اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ الفاظ کسی بھی جبہ و دستار میں ملبوس خود کے گرد پاکیزگی کا لبادہ چڑھائے عالمِ دین ہونے کا ڈھونگ کرتے شخص کے منہ سے اس قوم نے پہلی بار نہیں سنے۔ ماضی بعید میں جانے کی ضرورت نہیں۔ آپ صرف دو سال پیچھے چلے جائیں اور مولوی خادم حسین رضوی کی ججوں اور جرنیلوں کے متعلق گفتگو سنیے۔ فرق صرف یہ ہے کہ خادم رضوی کے سٹیج سے جرنیلوں کے بھی قتل کے احکامات جاری ہوتے تھے، یہ صاحب کیونکہ ایسے فرقے سے ہیں جو وطنِ عزیز میں مشکلات کا شکار ہے تو یہ صرف ججوں کو چوک میں کھڑا کر کے گولی مارنے پر ہی اکتفا کرتے پائے جاتے ہیں۔

ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ یہ مولانا اس فرقے سے تعلق رکھتے ہیں جس کے خلاف آئے دن اکثریتی فرقے سے تعلق رکھنے والے مولوی فتوے جاری کرتے رہتے ہیں۔ ایک ایسے اقلیتی فرقے سے تعلق رکھنے والا مولوی جو پہلے ہی زیرِ عتاب ہو اور جس فرقے کے لوگوں کو قتل کرنے کے یوں بھی فتوے جاری ہوتے پھرتے ہوں، وہ ایک جج کے لئے شریعت کے مطابق جرم بغیر ثابت ہوئے تاحیات جیل کا مطالبہ کر رہا ہے اور دوسری جانب چین کی جھوٹی مثال بھی دے رہا ہے کہ وہاں کرپشن کرنے والے کو فوراً گولی مار دی جاتی ہے۔ یہ شخص اس غلط بیانی کے فوراً بعد آصف علی زرداری، نواز شریف اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لئے بھی اسی سلوک کا مطالبہ کرتا پایا جاتا ہے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان تین افراد کا ہی نام کیوں لیا گیا؟ کرپشن تو ابھی حال ہی میں جہانگیر ترین کی پکڑی گئی ہے۔ اور قاضی فائز عیسیٰ پر کچھ ثابت نہیں تو پھر آخر ان تین افراد کے نام کیوں؟ ایک مسلم لیگ نواز کا سربراہ ہے، ایک پیپلز پارٹی کا تو ایک سپریم کورٹ کا جج ہے۔ ان تینوں میں قدرِ مشترک محض یہی ہے کہ پاکستان کے مقتدر حلقوں کو خطرہ ہے کہ یہ ان کے اختیارِ کل کو کچھ کم کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، لہٰذا ایسے بے حیثیت اور غیر معروف قسم کے عالم ہونے کا ڈھونگ رچاتے افراد ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے مفت کے ملازم بننے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔

حد نافذ کرنے سے متعلق حدیث بیان کر کے یہ شخص پاکستان میں شرعی قوانین کا مطالبہ بھی کر رہا ہے۔ ان صاحب کو یاد ہونا چاہیے کہ پاکستان کی 85 فیصد کے قریب آبادی اہلسنت مکتبہ فکر سے تعلق رکھتی ہے جن میں موجود شر پسند عناصر بغیر شریعت کے نفاذ کے ہی آپ کے ہم مسلک ساتھیوں کا جینا حرام کیے ہوئے ہیں۔ یہاں شریعت نافذ ہوئی تو امام خمینی، جن کی تصاویر ان کے یوٹیوب چینل پر بے شمار موجود ہیں، آیت اللہ نہیں بنیں گے۔ یہاں سے ملا عمر ہی نکلیں گے اور پھر وہ وہی کریں گے جو انہوں نے افغانستان پر قبضے کے بعد مزارِ شریف میں کیا تھا۔

اور امام خمینی کی تصاویر لگانے والے اس شخص سے ایک سوال یہ بھی کیا جانا چاہیے کہ چین کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے ایک لمحے کے لئے بھی یہ نہیں سوچا کہ اس سے پچھلی مثال آپ نے مولا علی شیرِ خدا کے دور سے دی ہے کہ جب کرپشن میں ملوث ایک شخص کے بارے میں امیر المؤمنین نے حکم دیا کہ اس شخص کو جمعے کی نماز پڑھنے کے لئے بھی جیل سے نہ نکالا جائے بلکہ اس کو اس وقت تک قید میں سڑنے دیا جائے جب تک کہ یہ مر نہیں جاتا۔ لیکن اس کے فوراً بعد کمیونسٹ چین کی مثال دیتے ہوئے اس کو ’آئیڈیل‘ کہہ دیا کہ جہاں ان صاحب کے مطابق کرپشن کرنے والے کو فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کر کے گولی مار دی جاتی ہے اور اس گولی کے پیسے بھی اس کے گھر والوں سے لیے جاتے ہیں۔

اس سے دو سوال پیدا ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ مولا علیؑ کے طے کیے گئے اصول پر ولیِ امر کمیونسٹ چین کی تقلید کیوں کرے گا؟ باب العلم کی سنت پر عمل کیوں نہیں کرے گا؟ دوسرا سوال یہ کہ امام خمینیؒ کے خیالات کمیونسٹس سے متعلق کیا تھے؟ وہ ایران میں سوشلسٹ انقلاب لائے تھے یا اسلامی انقلاب؟ اگر تقلید سوشلزم کی کرنی ہے تو پھر آپ بھی یہ عمامہ اور چادر اتاریے، ماؤ کیپ پہنیے اور نکل آئیے سڑکوں پر۔ لانگ مارچ کیجئے۔ اپنے منشور کا اعلان کیجئے کہ یہاں لینڈ ریفارم ہوگا۔ جس جس کے پاس گھر بنانے کے لئے زمین نہیں ہے، اس کو گھر دیا جائے گا اور جس کسی کے پاس بھی ضرورت سے زیادہ زمین ہے، اس سے وہ زمین واپس لے کر عوام کی فلاح کے لئے استعمال کی جائے گی، پھر چاہے یہ سرپلس زمین کسی فرد کی ملکیت ہو یا ادارے کی۔

آخر میں فرماتے ہیں کہ میڈیا پر ایسے اینکر حضرات بیٹھے ہیں جنہیں بات کرنے کی تمیز نہیں ہے۔ گویا یہ جو سب کچھ وہ کہہ رہے تھے، وہ تمیز تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ مولانا طارق جمیل نے اینکر حضرات سے معافی مانگی، ان کو معافی نہیں مانگنی چاہیے تھی، کورٹ میں بلانا چاہیے تھا اور وہاں ثابت کرنا چاہیے تھا کہ یہ جھوٹ بولتے ہیں۔ اب یہ جبہ و دستار میں ملبوس حضرت پھر ایک ایسے مسئلے کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں شریعت کے نفاذ کی صورت میں ان کے ہم مسلک افراد پر تقیہ کا الزام لگا لگا کر وہ وہ حدیں لگائی جائیں گی کہ یہ اپنے مطالبے پر اللہ کی پناہ مانگیں گے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بیگم نے اس ویڈیو کی بنیاد پر اسلام آباد پولیس کو درخواست دی ہے کہ ان کے شوہر کو بہت طاقتور لوگوں سے خطرہ ہے جو ہر حال میں ان سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں لہٰذا اس شخص کے خلاف ایف آئی آر کاٹی جائے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ ریاست کس طرف کھڑی ہے۔ جب خادم رضوی کے سٹیج سے ججوں کے ساتھ جرنیلوں کو بھی قتل کرنے کی ہدایات جاری کی جا رہی تھیں، اس وقت تو ریاست کا جواب بہت سفاک تھا۔ اب دیکھنا ہوگا کہ سپریم کورٹ کے جج کو گولی مارنے کا مطالبہ کرنے والے شخص کے خلاف ریاست حرکت میں آتی ہے یا نہیں۔
مزیدخبریں