معروف انگریزی اخبار ڈان کی رپورٹ کے مطابق اس سے قبل سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے اس بنیاد پر درخواستوں کے ایک سیٹ کو مسترد کردیا تھا کہ اس میں میں گستاخانہ زبان ہے اور اس کے علاوہ قانون کے تحت نظرثانی درخواست پر کسی فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے دوسری نظرثانی درخواست دائر نہیں کی جاسکتی ہے اور اس کے علاوہ بھی ان درخواستوں میں بہت سی دیگر خامیاں تھیں۔
باخبر ذرائع کے مطابق 175 صفحات پر مشتمل اپیلیں سپریم کورٹ کے اسٹیٹیوشن برانچ میں دائر کی گئیں جس میں رجسٹرار آفس کے حکومت کی جانب سے نظر ثانی کی درخواستوں کو واپس کرنے کے فیصلے پر اعتراضات اٹھائے گئے۔
سپریم کورٹ رولز 1980 کے مطابق رجسٹرار آفس کے فیصلے کو چیلنج کرنے کی اپیل ان کے چیمبر میں چیف جسٹس آف پاکستان کے نامزد جج کے ذریعہ کی جاتی ہے جو یا تو اپیل کو قبول کرتا ہے یا سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کو یہ بھجوا دیتا ہے جو آخر کار فیصلہ کرتا ہے کہ آیا اپیل سماعت کے لییے مقرر کی جانی چاہیے یا نہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ رجسٹرار آفس نے حکومت کو کاغذی کارروائی کو مکمل کرنے کے لیے دو ہفتوں کی مہلت دی ہے کیونکہ 90 کتابچے (10 ججز میں سے ہر ایک کے لیے نو اپیلوں کی کاپیاں جنہوں نے اصل نظرثانی درخواستوں کو سنا تھا) جس میں سے ہر ایک 175 صفحات پر مشتمل ہے، کو دائر کرنا تھا، حکومت پوری کوشش کرے گی کہ کاغذی کارروائی 15 دن کے اندر مکمل کی جائے۔
مزید یہ کہ جسٹس فائز عیسیٰ سمیت اس کیس میں ملوث مدعا علیہ اور فریقین کو نوٹسز جاری کیے گئے تھے کیونکہ قواعد کے تحت یہ ضروری ہے کہ اپیل یا کسی معاملے کے بارے میں فریقین کو آگاہ کیا جائے۔
اس سے قبل 25 مئی کے رجسٹرار آفس فیصلے میں ایک اعتراض یہ تھا کہ درخواستوں کو داخل کرتے ہوئے مدعا علیہ کو کوئی مناسب نوٹس جاری نہیں کیا گیا تھا لہذا اسے کوئی مہلت نہیں مل سکی جس کی وجہ سے مقدمہ اصل حالت میں قابل سماعت نہ ہونے کی وجہ سے واپس کیا جارہا ہے۔
اپیلوں کا سیٹ 24 جولائی کو دائر کیا گیا کیونکہ 24 مئی کو نظرثانی کی درخواستیں دائر کی گئیں اور قواعد کے مطابق رجسٹرار آفس کے فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے کسی بھی اپیل کو 30 دن کے اندر دائر کرنا ہوتا ہے۔
24 مئی کو حکومت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دیگر کی جانب سے دائر نظرثانی درخواستوں پر 26 اپریل 2021 کے اکثریتی فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواستیں دائر کی تھیں۔