ایران کا سیاسی نظام ایک پیچیدہ ترین سیاسی نظام ہے۔ ایران کے رہبر کے مطابق ایران میں نافذ نظام خالص اسلامی اصولوں کا علمبردار ہے جب کہ عملی طور پر ایسا کچھ نظر نہیں آتا۔ ایرانی عوام اس فرسودہ نظام سے کافی مایوسی اور ناامیدی کا شکار دکھائی دیتے ہیں جس کا پر امن اور بھرپور مظاہرہ انہوں نے حالیہ انتخابات کا بائیکاٹ کر کے کیا۔
ایران میں ہر چار سال بعد صدارتی انتخابات کے لئے نامزد افراد اپنے اسامی جمع کراتے ہیں جن کو رد یا قبول کرنے کا اختیار شورائے نگہبان کے پاس ہوتا ہے۔ سال 2021 کے حالیہ انتخابات میں شرکت کے لئے تقریباً 592 افراد نے الیکشن لڑنے کے لئے اپنی درخواستیں جمع کرائیں۔
جس میں سے صرف سات کو الیکشن لڑنے کا پرمٹ جاری کیا گیا۔ ملک کی نامور شخصیات، جن کے بڑے مارجن سے انتخابات جیتنے کے امکانات واضح تھے، کو انتخابات کے لئے شورائے نگہبان نے رد کر دیا۔ رد کیے جانے والے افراد میں ایرانی پارلیمنٹ کے سپیکر علی لاریجانی، سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد اور نائب صدر اسحاق جہانگیری شامل ہیں۔
رد کیے جانے والی شخصیات جن میں ایران کے سابق صدر محمود احمدی نژاد سر فہرست ہیں نے، احتجاج کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ اور ان کے حامی حالیہ الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے۔ ان کا کہنا تھا، ایران اس وقت بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ اور ملک کے اندرونی حالات بشمول سکیورٹی کے انتہائی خراب ہیں۔ دشمن کا اثرورسوخ ہماری جڑوں تک رسائی پیدا کر چکا ہے۔
یاد رہے موساد کے سابق چیف کوہن نے یہ بات واضح کہی تھی کہ اسرائیل ایران کے مرکز تک رسائی اور اثرورسوخ رکھتا ہے۔
ایران کے سابق صدر محمد خاتمی نے بھی اپنے رد عمل کا اظہار کیا اور اپنے انسٹاگرام پر شورائے نگہبان کے اس فیصلے کی مذمت کی۔ انقلاب اسلامی کے سرکردہ رہنما ہاشمی رفسنجانی کی بیٹی فائزہ رفسنجانی نے بھی انتخابات سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت کا نام مٹ چکا ہے اور ہم اب اسلامی حکومت میں جی رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی سینکڑوں سول سوسائٹی ایکٹیوسٹس نے انتخابات میں شرکت سے انکار کرتے ہوئے اسے الیکشن کی بجائے سلیکشن کا نام دیا جس میں صرف ایک شخص ابرہیم رئیسی کو جتوانے کے لئے ٹکر کے سب ہی امیدواروں کو راستے سے ہٹا دیا گیا۔
ایرانی رهبر علی خامنه ای نے شورائے نگہبان کے اس فیصلے کی حمایت کی اور ان کا شکریہ ادا کیا۔
دوسری طرف عوام نے فری ٹریبونلز پر اپنی رائے کا اظہار کیا اور انتخابات میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے کو دہراتے ہوئے ملک میں موجود کرپشن، غربت، مہنگائی مظاہرین کے قتل اور ان کو خیلوں میں بند کرنے کو اس فیصلے کی اصل وجہ بتایا۔
ایرانی بسیج اور سپاہ پاسداران نے گھر گھر جا کر ابراہیم رئیسی کے لئے ووٹ مانگنا اور لوگوں کو مجبور کرنا شروع کر دیا۔ ایرانی نظام کے مطابق اگر کوئی ایرانی ووٹ کاسٹ نہیں کرتا تو اسے اپنی سرکاری نوکری سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ اور اگر ابھی طالب علم ہو تو مستقبل میں سرکاری نوکری حاصل نہیں کر سکتا۔ لوگ ہر صدارتی انتخابات میں بھوک اور مستقبل بچانے کی وجہ سے پولنگ سٹیشنز کا رخ کرتے ہیں اور خالی ووٹ کاسٹ کرتے ہیں۔
ایران کے لیڈر نے انتخابات سے دو دن پہلے عوام سے انتخابات میں شرکت کی اپیل کی اور کہا کہ "میں مانتا ہوں کہ ملک میں بہت مسائل ہیں لیکن اس کا حل بیلٹ باکس سے ناراض ہونا نہیں ہے۔ اگر عوام انتخابات میں شرکت نہیں کرتے تو اس کی وجہ نظام سے دوری ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ انتخابات میں شرکت واجب ہے اور خالی ووٹ کاسٹ کرنا حرام قرار دے دیا۔
تمام تر حکومتی کوششوں کے باوجود ایرانی عوام نے حالیہ انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ ووٹنگ ٹائم کو پہلے شام 7 بجے پھر شب 12 بجے اور پھر رات 2 بجے تک بڑھا دیا گیا۔ اس کے باوجود بھی لوگ گھروں سے باہر نہ نکلے۔
ایران میں کسی باہر کے ادارے کو انتخابات کی مانیٹرنگ کرنے کی اجازت حاصل نہیں ہے۔ انتخابات کے نتائج کا اعلان ایران کی وزارت داخلہ خود کرتی ہے۔ حالیہ انتخابات کا ٹرن آؤٹ مندرجہ ذیل رہا۔
ایران میں کُل ووٹ ڈالنے کے اہل افراد 59 ملین، ووٹ کاسٹ کرنے والے 28 ملین، ابراہیم رئیسی کو منتخب کرنے والے 18 ملین اور خالی ووٹ ڈالنے والے 4 ملین سے اوپر رہے۔ واضح رہے یہ نتائج ایران کے حکومتی ذرائع کے بتائے ہوئے اعداد شمار ہیں۔ جس کے مطابق ٹرن آؤٹ 48 فیصد رہا۔ جس میں پہلے نمبر پر ابراہیم رئیسی اور دوسرے نمبر پر خالی ووٹ رہے۔ اس طرح صرف 30 فیصد لوگوں نے ابراہیم رئیسی کو ووٹ دیے جن میں اکثریت سپاہ پاسداران، حکومتی اہلکاروں اور آرمی کے اعلیٰ عہدیدار اور فیملیز کی تھی۔
ایران کے لیڈر علی خامنہ ای کے انتخابات میں شرکت کو واجب قرار دیے جانے کے باوجود بھی پولنگ سٹیشن خالی رہے۔ اور لوگوں نے ووٹ ڈالنے سے گریز کیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایران کے 1979 کے انقلاب کے بعد سب سے کم ترین ٹرن آؤٹ رہا جب کہ تمام ٹکر کے امیدواروں کو راستے سے ہٹا دیا گیا تھا اور صرف ایک امیدوار کے لئے راستہ ہموار کیا گیا، تب بھی رئیسی صرف 30 فیصد ووٹ حاصل کر سکے۔
جب کہ ایرانی حکومتی اداروں اور لیڈر نے کم ٹرن آؤٹ کا ذمہ دار ایرانی غیر حکومتی میڈیا اور امریکہ کو قرار دیا۔