تفصیلات کے مطابق ریلوے پولیس نے 27 مئی کو نجی طور پر چلنے والی بہاالدین زکریا ایکسپریس کے منیجر اور چار ٹکٹ چیکرز کو ایک خاتون مسافر کے ساتھ گینگ ریپ کے الزام میں حراست میں لیا تھا۔
واقعے کی تحقیقات کرنے والے تفتیش کاروں نے بتایا کہ گرفتار پانچوں مشتبہ افراد کے ڈی این اے کے نمونے متاثرہ خاتون کے جسم سے لیے گئے نمونوں سے میچنگ کے لیے پنجاب کی فارنزک سائنس لیبارٹری کو بھجوائے گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹکٹ چیکرز کے طور پر خدمات انجام دے رہے تین مشتبہ افراد کی فارنزک رپورٹس مثبت پائی گئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دو دیگر افراد کے نمونوں کا نتیجہ منفی آیا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ واقعے کی تحقیقات ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کر رہی ہے جو انسداد عصمت دریآرڈیننس 2020 کے تحت تشکیل دی گئی ہے۔
قانون متعلقہ حکام کو پابند کرتا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ گینگ ریپ کے کسی بھی واقعے کی تحقیقات ایک جے آئی ٹی کے ذریعے کی جائے جس کی سربراہی ایک ضلعی پولیس افسر کرے اور اس میں ایک ایس پی (انوسٹی گیشن)، ایک ڈی ایس پی اور ایک ایس ایچ او کو شامل کیا جائے، تحقیقاتی ٹیم میں ایک خاتون افسر کو بھی شامل کرنا ضروری ہے۔
قبل ازیں پولیس کا کہنا تھا کہ ریلوے ملازمین نے خاتون کے ساتھ اس وقت اجتماعی زیادتی کی جب وہ ملتان سے کراچی واپس آرہی تھی۔ سٹی ریلوے پولیس سٹیشن میں مقدمہ درج کرایا گیا، جبکہ متاثرہ نے شناخت پریڈ کے دوران دو ملزمان کو شناخت کیا۔
ملزم نے اس گھناؤنے جرم کے دوران متاثرہ کی فلم بھی بنائی، تفتیشی افسر (IO) نے تازہ ترین سماعت کے دوران تحقیقات کے مزید نتائج کا انکشاف کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ کو آگاہ کیا۔
معلوم ہوا کہ ایک ٹکٹ چیکر نے اکانومی کلاس میں اکیلی سفر کرنے والی خاتون کو ٹرین کے ایئر کنڈیشنڈ ڈبے میں سیٹ دینے کی پیشکش کی تھی اور بعد میں اس نے اور ریلوے کے چار دیگر عملے نے اس کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی۔
ایف آئی آر کے مطابق، یہ واقعہ 27 مئی کو پیش آیا جب متاثرہ، جس کا تعلق کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن سے ہے، ملتان ریلوے اسٹیشن سے کراچی کے لیے ٹرین میں سوار ہوا۔
ایف آئی آر میں بتایا گیا کہ خاتون مسافر نے کراچی کے لیے اکانومی کلاس کا ٹکٹ خریدا اور جب بہاؤالدین زکریا ایکسپریس روہڑی اسٹیشن پہنچی تو دو ٹکٹ چیک کرنے والوں اور ان کے انچارج نے مبینہ طور پر اسے اے سی بوگی میں سیٹ دینے کا لالچ دے کر پھنسایا۔
ٹکٹ چیکر، زاہد، اور ان کے انچارج، جن کی شناخت عاقب کے نام سے ہوئی، متاثرہ کو ایک بوگی کے اے سی ڈبے میں لے گئے جہاں انہوں نے اس کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی اور فرار ہوگئے۔