خیال رہے کہ ڈینم کلاتھنگ کمپنی کا شمار پاکستان کی بڑی کمپنیوں میں ہوتا ہے جو بین الاقوامی برانڈز کے کپڑے تیار کرتی ہے۔ کمپنی نے اپنے یونٹ IV میں کام کرنے والے مزدوروں کو بغیر کوئی وجہ بتائے نکال دیا ہے۔ اس من مانے فیصلے کے خلاف کارکنوں نے احتجاجی دھرنا شروع کر دیا ہے۔
خیال رہے کہ سابق وزیرخزانہ شوکت ترین نے سپر ٹیکس کے اعلان پر کہا تھا کہ چند انڈسٹریز جو چل رہی ہیں یہ اس کا بھی بیڑہ غرق کردیں گے۔ یہ جارحانہ اور پرانا پاکستان کا ٹیکس سسٹم ہے۔
تاہم معاشی تجزیہ کار خرم حسین اس بات سے اتفاق نہیں کرتے گذشتہ روز نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ صنعتوں پر عائد 10 فیصد ٹیکس کا عام آدمی پر اثر نہیں پڑے گا۔ اگر سیمنٹ فیکٹریاں اپنے ریٹس بڑھا بھی لیں گی تو عام آدمی اسے کھاتا تو نہیں ہے۔
https://twitter.com/FawadHazan/status/1540662824241958913?s=20&t=HpwOc_tFaT3KO07_ina6xA
ملک کی معاشی صورتحال پر اپنا تبصرہ پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کے پاس کوئی چوائس نہیں بچی تھی۔ ان کیلئے ریونیو بڑھانا ضروری تھا۔ سابق حکومت نے آئی ایم ایف سے یہ وعدہ کر لیا تھا کہ وہ پرسنل انکم ٹیکس سے یہ پیسے اکھٹے کریں گے۔ یعنی انہوں نے تنخواہ دار طبقے پر یہ بوجھ ڈالنے کی حامی بھر لی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کے پاس یہ آپشن نہیں تھا کہ وہ اس وعدے سے انحراف کرتے ہوئے کہتی کہ ہم یہ ٹارگٹ پورا نہیں کر سکتے۔ لیکن انہوں نے دوسرا طریقہ ڈھونڈا اور امیر صنعتکاروں پر یہ بوجھ ڈالنے کا فیصلہ کیا۔
پروگرام میں اپنی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے سپر ٹیکسز کا اعلان ہوتے ہی صنعتکاروں نے رونا شروع کر دیا ہے۔ وہ کہہ رہے کہ اس اقدام سے سرمایہ کاری رک جائے گی اور بے روزگاری پھیلے گی۔
انہوں نے کہا کہ اگر ڈیٹا پر نظر دوڑائی جائے تو ہمیں پتا چلے گا کہ پچھلے دس سالوں میں پاکستان کی جتنی لسٹڈ کمپنیاں ہیں ان کی کمائی اوپر گئی کبھی نیچے نہیں آئی۔ سوائے 2018ء وہ واحد سال تھا جن میں ان کا پرافٹ کم ہوا لیکن وہ بھی بہت ہی معمولی تھا۔
خرم حسین کا کہنا تھا کہ گذشتہ سال 2021ء میں ان کمپنیوں نے 970 بلین روپے کا ریکارڈ پرافٹ حاصل کیا لیکن تنخواہ دار طبقے کو تو اس کے فوائد نہیں پہنچائے گئے تھے۔ بڑی بڑی کمپنیوں نے اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں نہایت ہی معمولی اضافہ کیا تھا۔