اپنے بیان میں وزیر قانون نے کہا کہ نیب میں جو ترامیم ہیں، وہ عمران خان صاحب کا اپنا قانون تھا اور 80 فیصد ترامیم ان کی لائی ہوئی ہیں۔ یہ وہ 80 فیصد ترامیم ہیں جو عمران خان نے اپنے دور اقتدار میں آرڈیننس کے ذریعے نافذ کی تھیں۔
اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے ان ترامیم کو پارلیمنٹ میں لے جا کر ایکٹ یعنی قانون کی شکل دی ہے۔ تمام ترامیم آئین اور قانون کے عین مطابق ہیں۔ عمران خان اس معاملے پر عدالت سے رجوع کر چکے ہیں لہٰذا اس معاملے پر سیاسی بیان بازی سے احتراز کریں اور فیصلہ عدالت پر چھوڑیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم ان شاء اللہ ان ترامیم کا پورا دفاع کریں گے۔ یہ ترامیم اسلامی شریعت، آئین اور پاکستانی قوانین کے عین مطابق ہیں۔ عمران خان حکومت نے ملک کو تباہی میں دھکیل دیا تھا، ہم نے سرکاری ملازمین کو تحفظ دیا ہے تاکہ وہ نیب کی بلیک میلنگ کے بغیر ملک کی خدمت کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ صرف ایل این جی اور پٹرولیم کے شعبے کو ہی دیکھ لیں تو نیب کی اندھی پالیسی کی وجہ سے قومی خزانے کو اربوں ڈالر کا ٹیکہ لگا ہے۔ آزاد اور خود مختار پارلیمان میں بحث کے بعد نیب ترامیم منظور کی گئی ہیں۔
وزیر قانون کا کہنا تھا کہ پاکستان نے یہ تمام کارروائی ٹیلی ویژن پر براہ راست دیکھی ہے۔ اس کی ایک ایک شق پر بحث کرنے کے بعد قومی اسمبلی نے اس کی منظوری دی ہے۔ عدالتی فیصلوں کی روشنی میں ترامیم کی گئی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان ترامیم میں عدالت کو ضمانت کا حق دینا، سزا کے بعد ضمانت کا اختیار ہونا، ریٹائر ججوں کو جج تعینات نہ کرنا، چئیرمن نیب کو ہٹانے کا طریقہ کار وضع کرنا شامل ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ کئی کئی سال سے یہ عدالتی فیصلے تھے جن کی روشنی میں یہ ترامیم کی گئیں۔ سپریم کورٹ کے بنچ نے لکھا کہ نیب سیاسی انتقام کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ یہ وہی نیب اور قانون تھا جسے کالا قرار دیا گیا تھا، کہا گیا کہ یہ امر کا بنایا ہوا قانون ہے۔
انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان نے فل کورٹ ریفرنس میں یہ کہا تھا کہ مجھے تکلیف سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ان قوانین کا غلط استعمال ہوا ہے۔ ہم نے ترامیم کر کے قانون کے غلط استعمال کو روک دیا ہے۔ چیئرمن نیب کا دفتر اختیارات کا مرکز اور فرد واحد امر بن کر پورے ادارے کو یرغمال بنائے ہوئے تھا۔ ان کے صوابدیدی اختیارات کو آئین قانون اور شریعت کے دائرے میں لایا گیا ہے۔