نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں ملک کی سیاسی صورتحال پر اپنا تبصرہ پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بڑی عوامی تحریک چلانا بڑی مشکل بات ہے۔ پاکستانی کی عوام بلیٹ باکس ذریعے پارٹیوں کو سلیکٹ کرنا پسند کرتے ہیں، وہ کسی بڑی احتجاجی تحریک میں شامل نہیں ہوتے۔
مسلم لیگ ق کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ق لیگ میں محلاتی سازش ہے۔ گھر کا جھگڑا ہے۔ ان کی تیسری نسل میں خواہش مند زیادہ اور مال کم ہو رہا ہے۔ ظہور الٰہی کے جانے کے بعد چودھری شجاعت حسین کی قیادت میں یہ خاندان جڑا ہوا تھا۔ پرویز الٰہی کی خامیاں، شجاعت کی ذہانت کے پیچھے چھپی ہوئی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 2018 میں مسلم لیگ ق نے اچھی پرفارمنس دی تھی۔ اگر آصف زرداری صاحب ق لیگ کے ساتھ جاتے تو وہ پنجاب اور وفاق میں ن لیگ کو باہر رکھ سکتے تھے۔
پروگرام میں شریک مہمان توصیف احمد کا کہنا تھا کہ مجھے لگتا ہے کہ چودھری شجاعت حسین کو پریشر میں لا کر اپنے گھر کی سیاست کو پرویز الٰہی کے گھر رکھنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مونس الٰہی پر بڑے سنگین کیس ہیں۔ ان سے منی ٹریل دینا مشکل ہو جائے گا۔ اس پر تفتیش بھی ڈاکٹر رضوان نے کی تھی۔ ان کیسوں کی سنگینی کا پرویز الٰہی اور شجاعت حسین کو بھی پتہ ہے، مگر وہ پیچھے نہیں اب جا سکتے۔
مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ ق لیگ کے پاس کوئی پاپولر فگر نہیں ہے۔ نہ ان کے پاس کوئی سیاسی پروگرام ہے۔ مشرف کے دور میں ان کا چھکا لگ گیا تھا۔ اب مستقبل ان کے ختم ہونے کا ہے۔ اب عمران خان اور ن لیگ کا جو مستقبل ہوگا، وہ طے کرے گا کہ انکی باقیات کا کیا مستقبل ہوگا؟
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے خود کشی کا راستہ چنا ہے اور اس سے پرویز الٰہی کو کیا ملنا ہے، وہ آپ کو 17 جولائی کے ضمنی انتخابات کے بعد سمجھ آ جائے گی۔