مگر جب بھی حقیقی عوامی تحریکیں وجود میں آئیں تو اس نے غلامی، آمرانہ، غاصبانہ اور استحصالی نظاموں کو خس وخاشاک کی مانند بہا کر دریا برد کیا۔
آخر کیا وجہ ہے کہ مغربی پاکستان میں ہر قسم کے ظلم، جبر اور استحصال کے باوجود اس کے خلاف عوامی سیاسی تحریک نہیں پنپ سکی۔ سیاسی پنڈت اس حوالے سے بے شمار دلیلیں اور تاویلیں پیش کر سکتے ہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کے قائدین تو کبھی بین السطور اور کھبی اعلانیہ یہ شکوہ یا بالفاظ دیگر الزام لگاتے ہیں کہ عوام ہمارے ساتھ نہیں اٹھتے۔ یہ اس قبیل سے تعلق رکھتے ہیں جو عوام کو اپنے اشارے، منشا اور ضرورت کے مطابق اٹھانا اور بٹھانا چاہتے ہیں، لیکن عوام کے ساتھ اٹھنا اور چلنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ یہ جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں، تب بھی عوام سے قربانی کا مطالبہ کرتے ہیں اور جب حکومت میں آتے ہیں تب بھی۔
لیکن یہ نہیں کہتے کہ اصل میں حقیقی عوامی تحریکوں کے راستے میں یہی چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت رکاوٹ ہے۔ اگر کوئی دیکھنا چاہتا ہے کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی اقتدار میں آ کر نظام ریاست اور حکومت کیسے چلائے گی تو پہلے اس کی جماعت کے طریقہ کار اور عملاً کام کرنے کا مشاہدہ کر لیں۔
آئین اور منشور نہیں، وہ تو طاق نسیاں میں رکھنے کے لئے ہوتے ہیں۔ یہی سیاسی جماعتیں ہیں جو ملک کے آئین کی تو بالادستی چاہتے ہیں لیکن اپنی جماعت کے آئین کو صرف الیکشن کمیشن میں جمع کرانے اور رجسٹریشن حاصل کرنے کے لئے چھاپتی ہیں۔ ڈسپلن کے نام پر اپنے کارکنان کو کنٹرول کرنے کو من مانی تشریح کے لئے بطور ہتھیار استعمال کرتی ہیں۔ جس طرح اسٹیبلشمنٹ اور فوجی آمر جب بھی چاہے آئین کو توڑ اور معطل کر سکتا ہے لیکن ان کے غیر آئینی افعال کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے اسی آئین کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے۔
جماعتی تنظیم اور عہدوں سے لے کر انتخابات کے لئے ٹکٹوں اور حکومتی عہدوں کے تقسیم تک ان کی نظر میں انتخاب صرف خاندان کے افراد اور خاندان کی وفاداریاں ہوتی ہیں نہ کہ میرٹ۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ تو شروع ہی سے سٹیٹس کو کی جماعتیں ہیں جو اقتدار تک پہنچنے کے لئے عوام کا صرف نام اور اسٹیبلشمنٹ کی سیڑھی استعمال کر رہی ہیں۔ اقتدار تک پہنچنے کے بعد ان کی لڑائی عوامی، آئینی اور پارلیمانی بالادستی اور عوام کی فلاح و بہبود نہیں بلکہ اقتدار میں حصہ داری اور شراکت داری ہوتی ہے۔
بھٹو کو نہ سکیورٹی سٹیٹ ماڈل پر اعتراض تھا نہ دفاع اور سلامتی کے نام پر وسائل کی غیر متوازن تقسیم پر۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد رسوا ہوا۔ اسٹیبلشمنٹ اور اس کے سکیورٹی سٹیٹ ماڈل کو بھٹو نے ناصرف دوبارہ کھڑا کیا بلکہ عوامی اور جمہوری لبادہ استعمال کر کے اس کو مزید مضبوط کیا۔ اس کے بدلے وہ اقتدار میں بڑے بھائی والا حصہ اور حیثیت مانگ رہا تھا یعنی وہ اسٹیبلشمنٹ کو آئین اور قانون کے ماتحت نہیں اپنے ماتحت لانا چاہتا تھا۔ وہ عوام اور جمہوریت کے نام پر عوامی حاکمیت نہیں بلکہ اپنی آمریت قائم کرنا چاہتا تھا۔ اس لئے جب اس کو نشان عبرت بنایا تو نہ میدان میں پارٹی آئی اور نہ عوام۔
بعض دوست خصوصاً جیالے مختلف دلیلیں دیں گے اور شروع 1973 آئین سے کریں گے۔ وہی آئین جس کا حلیہ بھٹو نے اقتدار میں رہنے کے لئے خود بگاڑنا شروع کیا تھا۔ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اس سے یہ ملک نو سال سرزمین بے آئین رہا اور 24 سالوں میں نہ عوامی رائے دہی کی بنیاد پر کوئی انتخابات ہوئے تھے۔ اس عرصہ میں 13 سال مسلسل فوجی آمریت رہی۔ عوام کی مایوسی اور غصہ روز بروز بڑھ رہا تھا۔ دوسری طرف اس وقت مشرقی پاکستان ( بنگلہ دیش) میں سیاسی بیداری تو پہلے سے موجود تھی لیکن اب وہاں ترقی پسند سیاسی سوچ تیزی سے پھیل رہی تھی کیونکہ وہاں کی سیاسی قیادت کا تعلق جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ اشرافیہ سے نہیں بلکہ درمیانے طبقے سے تھا۔
لہذا اس خوف سے کہ کہیں اقتدار کا کھیل کلی طور اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ سے نہ نکلے، اس نے ہاتھ بھٹو کے سر پر رکھ دیا۔ ان کے ذریعے جنرل ایوب، جو اب ایک بوجھ بن رہا تھا، کو بھی نکالنا تھا۔ ساتھ ساتھ سندھی، بلوچ، پختون اور بنگالی نیشنلزم کو قابو میں رکھنا تھا۔ خیر بنگال کو تو قابو نہیں کر سکا ، شاید اس لئے کہ سیاسی طور پر بیدار مشرقی بازو مغربی دنیا اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کے مفادات کے لئے ممکنہ خطرہ یا رکاوٹ ثابت ہو سکتا تھا۔
ان معروضی حالات اور سیاسی صورتحال میں چند نام نہاد اصلاحات اور عوام کو کچھ آئنیی حقوق دینا معجزہ یا کارنامہ نہیں تھا لیکن یہ اس لئے لوگ ایک کارنامہ شمار کرتے ہیں کہ اس سے پہلے اس کی نظیر نہیں تھی۔ اگر بھٹو یہ بھی نہ دیتا تو کیا جنرل ایوب اور یحییٰ کی طرز پر ملک چلاتا؟ درست موازنہ یا اندازہ تو تب ہوتا اگر حکومت نیپ یا عوامی لیگ کو ملتی کہ وہ کس قسم اور کتنے آئینی، جمہوری اور معاشی حقوق عوام کو دیتی، اور کس طرز کی حکمرانی متعارف کرواتی۔
شہباز شریف کی قیادت میں پی ڈی ایم کی حکومت جو کچھ کر رہی ہے یہ بھی اس کا تسلسل ہے۔ یہ 10 فیصد سپر ٹیکس عوام کے لئے نہیں بلکہ موجودہ نظام جس میں مقتدر حیثیت اسٹیبلشمنٹ کی ہے کو بچانے کے لئے کر رہی ہے اور اسٹیبلشمنٹ ان کو اس مقصد کے لئے اقتدار میں لائی ہے۔ کیونکہ عوام میں نچوڑنے کے لئے مزید خون نہیں رہا، اور اسٹیبلشمنٹ نہ دفاعی بجٹ کم کرنے پر راضی ہے نہ اپنی مراعات اور نہ عسکری کاروبار پر ٹیکس لگانے کے لئے۔
نواز شریف بھی کوئی انقلابی نہیں تھا بلکہ بھٹو کی طرح اپنی قیادت میں سویلین اشرافیہ کی بالادستی چاہتا تھا، لیکن فی الوقت ایسا لگ رہا ہے کہ انہوں نے بھی اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی قبول کر کے جونیئر پارٹنر بننے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔
ماضی بعید تو چھوڑیں اگر ہم پی ٹی ایم کی مثال لیں تو مذکورہ بالا حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ یہ خود رو تحریک ملک کی پختون بیلٹ میں اٹھی لیکن اس کو پورے ملک میں عوامی پذیرائی مل رہی تھی، اور دوسرے علاقوں کے لوگوں خصوصاً نوجوانوں کے لئے ایک مثال بن رہی تھی۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اس نوازئیدہ تحریک کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ روایتی سیاسی جماعتوں نے اپنے لئے خطرہ محسوس کیا۔ یہی جماعتیں عوام کے ساتھ روا ظلم اور جبر پر تو خود بات کر نہیں سکتیں۔ دو دہائیوں سے جاری کشت وخون کی نہ حقیقی عوامل پر کھل کر بات کر سکتی ہیں اور نہ ان کے ذمہ داروں کے نام لے سکتی ہیں کیونکہ ان کو اسٹیبلشمنٹ سے اقتدار میں حصہ لینے کے لئے صرف عوام سے ووٹ چاہیے تھے۔
چنانچہ مولانا فضل الرحمان اور اے این پی نے اس کی کھل کر مخالفت شروع کی۔ پیپلز پارٹی نے اس میں ایک گروپ کی درپردہ حمایت کی۔ ایک طرف تو محسن داوڑ کو پی ڈی ایم کا حصہ بنانا چاہتی تھی لیکن علی وزیر کے خلاف مقدمات اس کی صوبائی حکومت بناتی رہی اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ پتہ نہیں کہ علی وزیر کون سے کھیل میں رکاٹ ہے۔
محمود خان اچکزئی کی پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے شروع میں کھل کر پی ٹی ایم کے حمایت کی۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ بلوچستان کی پختون بیلٹ، جنوبی پختونخوا میں ان کی بڑی سیاسی حریف جے یو آئی ف اور اے این پی ہے اور خیبر پختونخوا میں ان کی پارٹی نہ ہونے کے برابر ہے۔ درحقیقت اس کے موجودہ ڈھانچے اور قیادت کی موجودگی میں خیبر پختونخوا میں اس کی توسیع کا امکان آج بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔
دراصل پختونخوا میپ نے جس انداز میں اس صوبہ میں انٹری کی وہ اس کے گلے کا طوق بن گیا۔ اول اس نے 1985 میں مزدور کسان تحریک شیر علی باچا گروپ کے ساتھ اتحاد کیا جس نے تقریباً 1988 میں انضمام کا شکل اختیار کی۔ انضمام کے نتیجے میں پارٹی کا آئین اور منشور بھی از سر نو تشکیل دیا گیا جس نے ایک پختون نیشنلسٹ جماعت کو بائیں بازو کی جماعت میں بدل دیا۔ یہ وہ دور تھا جب یہ تحریک اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی جس کو بھٹو نے نیپ ولی خان کے خلاف ان کے گڑھ سمجھے جانے والے تین اضلاع میں کھڑا کر کے سپورٹ کیا تھا جو اب ضیاالحق کے زیر عتاب تھی۔
جب تک شیر علی باچا بقید حیات تھے تو مردان چارسدہ میں تقریباً دو تین ہزار ساتھی تھے لیکن ان کے بعد یہ سینکڑوں رہ گئے۔ اور اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس صوبے میں ان کے ہاتھ میں پوری پارٹی آئی تھی اور یہ سب مختلف سطحوں پر عہدیدار تھے اور بعضوں کے پاس دو اور تین، تین عہدے تھے۔
اس کے علاوہ مرکز میں بھی ان کو عہدے ملے تھے۔ یہاں کا صوبائی صدر مرکزی ڈپٹی چیئرمین بھی تھا جو اس سال فروری کے مہینے میں مرکزی جنرل سیکرٹری بن گیا اور صوبائی صدارت ان کے گروپ کے بندے کو دی گئی۔ لہذا اس صورتحال میں پارٹی مزید ترقی کے بجائی تنزلی کے طرف جا رہی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جس گروپ کو یہاں پارٹی کے حوالے کیا گیا تھا وہ عوامی تحریک نہیں تھی بلکہ کسانوں کی بات کر رہی تھی۔ عام پختون اس کو بھٹو کی پروردہ تنظیم سمجھتے تھے۔ کچھ اور عوامل کے علاوہ اس گروپ کی وجہ سے یہاں پر میپ جڑیں نہیں پکڑ سکی۔
مطلب یہ ہے کہ یہ روایتی سیاسی جماعتیں نہ خود عوام کے مسائل پر بات کرتی ہیں نہ اصل اسٹیبلشمنٹ مخالف موقف اپنا سکتی ہیں اور نہ اصل عوامی تحریکوں کو سر اٹھانے دیتی ہیں۔ ان کا جھگڑا عوام کے لئے نہیں لیکن عوام کے نام پر سویلین اشرافیہ کے لئے ریاستی امور اور اس کی فیصلہ سازی کے عمل میں برتر یا برابر حیثیت حاصل کرنا ہے۔ لیکن ان کو یہ بات ذہن نشین کرنا چاہیے کہ جب حالات ناقابل برداشت ہو جاتے ہیں تو عوام پھر تحریک کی نہیں بلکہ ایک طوفان کی شکل میں اٹھتے ہیں اور اس کی پیش گوئی بھی نہیں کی جا سکتی۔ اور اس طوفان کی تباہ کاریوں سے یہ بھی نہیں بچیں گے۔