ڈان اخبار میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں ہے کہ کچھ لوگ کرونا وائرس جیسی وبائی بیماری کی شدت کو سمجھ نہیں رہے ہیں کیونکہ وہ اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات نہیں کر رہے ہیں جبکہ کچھ افراد کو علامات نہ ہونے کے باوجود وائرس ہونے کا شدید فوبیا ہو گیا ہے۔
رپورٹ میں ہے کہ لوگوں میں شدید خوف و ہراس کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے جس سے ان کے دل کی دھڑکنیں تیز ہونا، منہ خشک ہونا اور پورے جسم کا سن ہونا جیسی علامات سامنے آ رہی ہیں اور اس کے علاوہ آدھی رات کو وہ گھبراہٹ سے جاگ جاتے ہیں۔
ڈاکٹر میاں افتخار حسین نے اس حوالے سے بتایا کہ ایسے لوگوں کو پریشان کن خیالات آتے ہیں کہ اگر وہ مر گئے تو ان کے اہلخانہ، بیوی اور بچوں کا کیا بنے گا، وہ تفتیش اور علاج کے لیے نفسیاتی نوعیت کے دم گھٹنے اور سانس کی تکلیف کے ساتھ ہسپتالوں میں پہنچ جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ لوگوں کا خیال ہے کہ ان کے اہلخانہ کے افراد مرنے والے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہاں تک کہ پڑھے لکھے افراد بھی انفیکشن کے خوف سے شہروں کو چھوڑ کر گاؤں منتقل ہو گئے ہیں۔ ماہر نفسیات کا کہنا تھا کہ انفیکشن کے بارے میں فوبک اضطراب کی شکایت میں مبتلا افراد خود کو تجاویز دے سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں بخار، کھانسی، گلے یا سینے میں انفیکشن ہے، انہیں کچھ نہیں ہو گا، انہیں لیٹنا چاہیے، گہری سانسیں لینا چاہئیں اور جب تک ہو سکے اسے روکیں اور پھر اسے آہستہ آہستہ چھوڑیں اور دن میں تین بار اسے دہرائیں۔
ڈاکٹر افتخار نے کہا کہ وہ اس مشق کے ذریعے اپنے آپ کو کسی آرام دہ اور پرسکون مقام پر لے جا کر تھراپی کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس میں 95 فیصد انفیکشن سے جسم کا قوت مدافعت کا نظام لڑ سکتا ہے۔ صرف پانچ فیصد متاثرہ افراد کو پھیپھڑوں اور سانس کی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، شدید فوبیا والا شخص نفسیاتی ماہر سے رابطہ کرے۔