انھوں نے دھمکیوں اور نصیحتوں کے باوجود تحریک انصاف میں واپس آنے سے انکار کر دیا ہے۔ اسی طرح، اتحادی جماعتوں کے کم از کم 15 اراکین قومی اسمبلی نے مسٹر خان کے خلاف عدم اعتماد کی حمایت کے لیے حزب اختلاف کے ساتھ معاہدہ کرنے کا اعتراف کیا ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ اگر قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر اگلے سات دنوں میں آئینی طریقہ کار پر عمل کرتے ہیں تو عدم اعتماد کی کامیابی یقینی ہے۔ لیکن یہاں ایک مسئلہ ہے کہ عمران خان، جو ہمیشہ اخلاقیات کے گھوڑے پر سوار رہتے ہیں، اپنی معزولی کے خلاف مزاحمت پر کمر باندھ چکے ہیں۔ قانون اور آئین کیا کہتا ہے، انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ سپیکر نے اپنے صوابدیدی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے یوم حساب کو موخر کیا ہے۔
شواہد دکھائی دیتے ہیں کہ وہ پس وپشت سے کام لیتے معاملے ہر ممکن طریقے سے التوا میں رکھنے کی کوشش کریں گے۔ اس میں صدر عارف علوی کی ملی بھگت سے اپوزیشن کو فیصلوں کی وضاحت یا پابندی کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے پر مجبور کرنا شامل ہے۔ اس میں مزید تاخیر ہوگی۔ مثال کے طور پر صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ سے رائے طلب کی گئی کہ کیا فلور کراس کرنے والے اراکین قومی اسمبلی تاحیات پارلیمنٹ سے نااہل ہوں گے یا صرف ایک پارلیمانی مدت کے لیے؟
جس دوران پارلیمنٹ میں حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان ہونے والی لڑائی کا دائرہ سپریم کورٹ آف پاکستان تک پھیل گیا ہے، عمران خان روزانہ اپنے حامیوں کو 27 مارچ کو ایک ”تاریخی” ریلی کے لیے اسلام آباد پہنچنے کی ہلہ شیری دے رہے ہیں۔
اس دوران وہ ناک آؤٹ کرنے کے لیے ایک زبردست سرپرائز دینے کا بھی اعلان کر رہے ہیں۔ چونکہ ان کی برطرفی اب ایک قانونی اور آئینی مسئلہ ہے، اس لیے وہ سپریم کورٹ پر عوامی دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں تاکہ وہ ”آئینی انصاف” کے تصورات سے ہاتھ کھینچ لے۔ اسی طرح وہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی بلیک میل کرنے پر تلے ہوئے ہیں تاکہ وہ سیاسی ”غیر جانبداری“ ترک کرکے ان کے ساتھ کھڑی ہو جائے۔
یہ ایک خوفناک اور پرخطر حکمت عملی ہے۔ حزب اختلاف پہلے ہی 27 مارچ کے عمران خان کے جلسے کو چیلنج کرنے کے لیے تیار ہو چکی ہے۔ اس مقصد کے لیے 28 مارچ کو اسلام آباد میں جلسہ کیا جائے گا۔ نہیں معلوم کہ عمران خان کی طرف سے کسی نہ کسی بنیاد پر اسے شرمندہ کرنے، تقسیم کرنے یا نیچا دکھانے کی کسی بھی کوشش پر اسٹیبلشمنٹ کیا ردعمل ظاہر کرے گی۔
مثال کے طور پر موجودہ آرمی چیف کو ”ڈی نوٹیفائی” کرنا اور ایک نئے کو نامزد کرنا۔ ایسے کسی بھی اقدام کو ایک سے زیادہ طریقوں سے ادارہ جاتی طور پر چیلنج کیا جائے گا۔ اس کے لیے ممکنہ تشدد ایک سٹیج فراہم کر سکتا ہے۔ کچھ میڈیا رپورٹس ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی کوشش ہے کہ قومی مفاد میں مرکزی کرداروں کے درمیان کوئی نہ کوئی سمجھوتا کرا دیا جائے۔
مجوزہ فارمولے کے تحت اگلے سال کی بجائے اس سال کے آخر میں غیر جانبدار اسٹیبلشمنٹ کے تحت انتخابات ہوں اور عدم اعتماد کے ووٹ کو کالعدم قرار دینے کے بدلے میں نیب، ایف آئی اے وغیرہ کی جانب سے اپوزیشن کو نشانہ بنائے جانے سے روکا جائے۔ اس طرح حکومت اور حزب اختلاف، دونوں کا بھرم رہ جائے گا۔
ہم اسٹیبلشمنٹ، وزیراعظم اور صدر مملکت کے درمیان کچھ معنی خیز ملاقاتوں کے بارے میں جانتے ہیں۔ حکومت کے اتحادیوں، جو اسٹیبلشمنٹ کے اثاثے کہلاتے ہیں، نے تاحال تحریک انصاف حکومت سے علیحدگی کا باضابطہ اعلان نہیں کیا۔ گویا وہ اب بھی کسی ”سگنل“ کا انتظار کر رہے ہیں جو اُنہیں قدم آگے بڑھانے یا پیچھے ہٹانے کا اشارہ کرے۔
اپوزیشن نے اسلام آباد کی طرف اپنا مارچ دو دن کے لیے موخر کر دیا ہے۔ اب وہ اپنی ریلی عمران خان کے جلسے کے اگلے دن منعقد کرنے جا رہے ہیں۔ اس سے پہلے اُن کی ریلی بھی اسی روز تھی جس روز عمران خان کی۔ سپیکر قومی اسمبلی نے اپوزیشن کی عدم اعتماد کی قرارداد پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی تاریخ 25 مارچ سے 28 مارچ تک ملتوی کر دی ہے۔ سپریم کورٹ پارٹی تبدیل کرنے والے اراکین قومی اسمبلی کو ڈی سیٹ یا نااہل کرنے کا فیصلہ کرنے میں کوئی جلدی نہیں کر رہی۔ یہ فیصلہ سیاسی مستقبل پر بڑی حد تک اثر انداز ہو سکتا ہے اور عدم اعتماد کے ووٹ کے نتائج کا ترازو ایک یا دوسری طرف جھکا سکتا ہے۔
دوسری طرف میڈیا کی ذمہ دار آوازیں کہتی ہیں کہ عمران خان کو آنے والے دنوں میں ایسی ضربیں لگیں گی جو انہیں زمین بوس کر دیں گی۔ یہ ان کے اتحادیوں کی طرف سے باضابطہ اعلانات ہو سکتے ہیں کہ انہوں نے حزب اختلاف کی صفوں میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ اس سے ان کی حکومت خود بخود گر جائے گی۔ عدالت یا الیکشن کمیشن کے فیصلے بھی انہیں ناک آؤٹ کرسکتے ہیں۔
حزب اختلاف کے لیڈروں کا اصرار ہے کہ وہ کشتیاں جلا چکے ہیں۔ عمران خان کے ساتھ کسی قسم کا سمجھوتا خارج از امکان ہے کیونکہ ان کے درمیان اعتماد کی کمی ہے۔ عمران خان نے اتنی کثرت سے جھوٹ بولا ہے اور اتنے یوٹرن لیے ہیں کہ وہ اس کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ کی یقین دہانیوں کو قبول کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ دباؤ برقرار رکھیں گے چاہے عمران خان کسی نہ کسی وجہ سے اس ضرب سے بچ جائیں۔ وہ عمران خان کو من مانی کرنے کا موقع نہیں دے سکتے کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ وہ پارلیمانی جمہوریت کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ وہ اگلے انتخابات میں دھاندلی کرکے فسطائی حکومت قائم کریں گے۔ اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان اعتماد کا فقدان بھی ہے۔ اسی نے اپوزیشن کو معاملات کو اس نہج تک لانے کا موقع فراہم کیا ہے۔
جس دوران سولینز کے درمیان رسہ کشی جاری ہے، اسٹیبلشمنٹ بھی غور کر رہی ہے کہ اس کا حالیہ ہائبرڈ حکومت قائم کرنے کا تجربہ ناکامی سے دوچار ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے ہوشربا مہنگائی، بے روزگاری، بڑے پیمانے پر بے چینی اور پریشان کن تناؤ کی وجہ سے معیشت کی نبضیں مسلسل ڈوب رہی ہیں۔ یہ ایک ایسے ملک کے ڈھانچے کے لیے خطرناک ہے جو پہلے ہی دہشت گردی اور علیحدگی پسندی سے دوچار ہے اور مالی دیوالیہ پن کا سامنا کر رہا ہے۔
آئندہ چند دنوں میں سیاسی محاذ آرائی عروج پر پہنچ جائے گی۔ اپوزیشن کے پاس تمام کارڈز ہیں لیکن عمران خان ایک ترپ کے پتے کے ذریعے کھیل تبدیل کرنے کا دعویٰ کررہے ہیں۔ آخری تجزیے میں اسٹیبلشمنٹ اور سپریم کورٹ ہیں جن کے فیصلے توازن کو کسی طرف جھکائیں گے۔ اگر دونوں ”غیر جانبدار“ رہیں تو جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالا دستی کو بحال کرکے ملک کی غلطیوں کو درست کیا جا سکتا ہے۔