نجم سیٹھی نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ مکمل طور پر نیوٹرل رہنا چاہتی ہے۔ اسی وجہ سے عمران خان اور ان کے ساتھی پریشان ہو چکے ہیں۔ اتحادی آخری وقت تک کوئی اعلان نہیں کرینگے کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ ان پر کسی قسم کا کوئی دبائو آئے۔ مگر فیصلہ کر لیا گیا ہے کہ وہ اپوزیشن کا ساتھ دیں گے۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں ملک کی پل پل بدلتی سیاسی صورتحال میں اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کیلئے گھڑی کی ٹک ٹک شروع ہو چکی ہے۔ میں کچھ عرصے سے کہہ رہا تھا کہ وزیراعظم کو احساس تھا کہ یہ کھیل کہاں جا کر ختم ہوگا۔ اسی لئے انہوں نے ایک بیانیہ بنانا شروع کر دیا تھا۔ جن میں سے ایک امریکا کی مخالفت، دوسرا مذہب جبکہ تیسرا اچھائی اور بدی کا پرچار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے آج تک نہ تو سیاست سیکھی اور نہ ہی سیکھنے کی کوشش کی۔ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے سر پر کام کرتے رہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے ہی ان کے جلسے کروائے اور الیکشن میں بندے دیئے۔ میں تو اتنا تک جانتا ہوں کہ 2011ء کے جلسے میں کون کون ان کیساتھ تھا اور کس کس نے پیسے دیئے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ بہت کچھ ہونے والا ہے، صرف 48 گھنٹے انتظار کر لیں، بڑی بڑی خبریں آنے والی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کے پاس کوئی سرپرائز نہیں، سب ڈرامہ ہے۔ ان کے پاس کوئی نیا پیغام بھی نہیں ہے۔ وہ یہ بات صرف اس لئے کر رہے ہیں تاکہ لوگ 27 مارچ کے جلسے میں پہنچیں۔ کہا جا رہا تھا کہ شاید عمران خان کسی نوٹی فیکیشن یا ڈی نوٹی فیکیشن کی بات کریں گے۔ لیکن ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے۔ تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے لیکن وزیراعظم اور اسٹیبلشمنٹ دونوں ہی موڈ میں نہیں ہیں۔
نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ اس بات کی توقع تھی اور اپوزیشن کو پتا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے اپوزیشن کا اجلاس پیر کے روز تک ملتوی کر دیا جائے گا۔ اپوزیشن سمجھتی ہے کہ سپیکر اسد قیصر کی جانب سے اس معاملے پر اور کوئی گڑبڑ نہیں ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ سپیکر قومی اسمبلی اس وقت نان نیوٹرل بنے ہوئے ہیں اور عمران خان کے احکامات پر چل رہے ہیں۔ اس وقت وزیراعظم، صدر اور سپیکر ایک ہی صفحے پر ہیں اور مل کر تمام اقدامات کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن پرامید ہے کہ وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جائے گی، اب اس میں زیادہ تاخیر نہیں ہوگی۔ البتہ سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے بھرپور کوشش کی جائے گی کہ اس میں کوئی ایسے فیصلے کئے جائیں جس کیساتھ اپوزیشن کو تکلیف ہو اور وہ سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ اس کو چیلنج کرنا چاہیے یا نہیں؟ اگر اسد قیصر آئین کے مطابق کام نہیں کرتے تو ہو سکتا ہے کہ ایک دو اور معاملے سپریم کورٹ میں چلے جائیں۔