معاشی مافیا سے غنڈوں جیسا سلوک کیے بغیر معیشت ٹھیک نہیں ہو سکتی

پاکستانی معیشت کا اصل مسئلہ معاشی اور مالیاتی فریم ورک سے کہیں باہر موجود ہے۔ یہ پراپرٹی ڈیلروں، بڑے تاجروں، زمینداروں، سیاست دانوں اور بیوروکریسی کی بدنیتی اور مجرمانہ رویوں کا معاملہ ہے۔ لہٰذا اس مسئلے کو محض فکری و معاشی مشق سے حل نہیں کیا جا سکتا۔

01:41 PM, 25 Mar, 2024

ڈاکٹر حسن ظفر

یہ تحریر معروف پاکستانی ماہرین اقتصادیات اور مالیاتی ماہرین کے ساتھ میرے انٹرویوز سے اخذ کی گئی ہے۔ یہ انٹرویوز میرے یوٹیوب شو 'ٹاکنگ پالیٹکس' پر فروری اور مارچ 2024 کے مہینوں کے دوران، یعنی 8 فروری کے انتخابات کے بعد اور 24ویں آئی ایم ایف کے جائزے سے پہلے کیے گئے تھے۔

ماہر اقتصادیات ہارون شریف سیاسی جماعتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تمام سیاسی پارٹیوں کے منشور میں محض وعدے ہیں اور وہ کسی بھی حقیقی معاشی منصوبے سے عاری ہیں۔ دوسری طرف، پاکستان نے تجارتی پالیسی میں اصلاحات یا علاقائی تجارتی لبرلائزیشن کو بڑھانے کے بجائے معاشی معاملات کے بارے میں لین دین کی سوچ کو اپنا رکھا ہے۔ چنانچہ موجودہ معاشی ڈھانچہ 250 ملین لوگوں کے لیے معاشی مواقع پیدا نہیں کر سکتا۔ اس ڈھانچے کو تبدیل کرنے کے لیے ہمیں فریم ورک کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، جو صرف پالیسی کی تبدیلی کے ساتھ ہو سکتا ہے، نہ کہ موجودہ طریقہ کار کے ساتھ۔

سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ساتھ پاکستان کے مالیاتی ادارے بھی اس بحران کے ذمہ دار ہیں۔ مزید براں، سیاسی حکومتیں، خاص طور پر بیوروکریسی معیشت کے ناقص ڈیزائن کی ذمہ دار ہیں، جس نے اندرونی ضروریات پہ توجہ کا رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ نتیجتاً، پاکستان کی معیشت میں برآمدات پر توجہ کا فقدان ہے۔ ہم بین الاقوامی مارکیٹ کے لیے اعلیٰ معیار کی اشیا اور خدمات تیار نہیں کر رہے۔ ہماری زرعی اور صنعتی پیداوار باقی دنیا سے پیچھے ہے، جس کی بنیادی وجہ توانائی کی زیادہ لاگت ہے، یعنی بجلی اور گیس کی لاگت۔ اس سلسلے میں پاکستان پیپلز پارٹی نے 1970 کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں صنعتوں کو قومیا کر قومی پیداوار کو بیوروکریسی کے ہاتھوں میں دے دیا تھا۔ پھر 1990 کی دہائی میں بے نظیر بھٹو کی قیادت میں آئی پی پیز متعارف کرائے گئے اور ڈیموں کی تعمیر کی مخالفت کی گئی۔ نتیجتاً، ہماری صنعتیں تباہ ہو گئیں اور اب ہمارے پاس برآمدات کے لیے کچھ بھی قابل ذکر نہیں ہے۔ ہم عام ضرورت کی اشیا بھی درآمد کرنے پہ مجبور ہیں جس نے غیر ملکی قرضوں میں اضافے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ چنانچہ اب حکومت کے حجم کو کم کرنے اور پن بجلی کی طرف منتقلی سمیت سخت اقدامات کیے بغیر اس کا ازالہ نہیں کیا جا سکتا۔

اس صورت حال سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ہمارے سابق اکنامک مینجرز ان تمام چیزوں کو جانتے تھے تو وہ سٹیئرنگ وہیل پر رہتے ہوئے خود کچھ کیوں نہ کر پائے؟ شاید درج ذیل انکشافات اس سوال کا جواب دے سکیں۔

ڈاکٹر حفیظ پاشا پاکستان کے موجودہ معاشی نظام سے فائدہ اٹھانے والے معاشرے کے تین طبقوں کی نشاندہی کرتے ہیں؛ زمیندار، ریئل سٹیٹ ڈیلرز اور بڑے تاجر۔ ان کی تحقیق کے مطابق، 'صرف 1 فیصد زمیندار پاکستان کے بہترین اور سب سے اچھے زرعی رقبے کے 22 فیصد حصے کے مالک ہیں۔ اس طبقے کی خالص آمدنی 1500 ارب روپے ہے اور وہ ٹیکس کی مد میں صرف 2 ارب روپے ادا کرتے ہیں'۔ جب ڈاکٹر پاشا نے ان افراد پر ٹیکس لگانے کی کوشش کی تو انہیں ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'ریاست پر اشرافیہ نے قبضہ کر رکھا ہے'۔ اس کے ساتھ ہی وہ پراپرٹی ٹیکس اور ویلتھ ٹیکس لگانے پر اصرار کرتے ہیں جسے اسحاق ڈار نے 1996 میں وزیر خزانہ بننے کے بعد ہٹا دیا تھا۔ اس سے ان لوگوں کو کھلی چھوٹ مل گئی جو پلاٹ کی فائلیں خریدنے میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے تھے۔ وہ لوگ وقت کے ساتھ ساتھ پراپرٹی کی قیمت سے حاصل ہونے والے سرمائے کے منافع پر ٹیکس سے مستثنیٰ ہوتے چلے گئے اور نتیجتاً، اشرافیہ کیپیٹل گین ٹیکس سے مستثنیٰ ہو گئی۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دو کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

اسی طرح، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے سابق چیئرمین شبر زیدی نے اپنے انٹرویو میں انکشاف کیا کہ تقریباً 2.5 ملین تاجروں میں سے بمشکل 2 لاکھ تاجر ہی ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ جب انہوں نے بحیثیت چیئرمین ایف بی آر اس معاملے پر دباؤ ڈالا تو گورنر ہاؤس سندھ میں تاجروں نے ان پر حملہ کر دیا۔ زیدی نے دعوٰی کیا کہ ٹیکس اہلکار لاہور کی ہال روڈ مارکیٹ یا اعظم کلاتھ مارکیٹ میں داخل نہیں ہو سکتے۔ خوردہ فروش اور تاجر ٹیکس اہلکاروں کو اپنی مارکیٹوں سے بھگا دیتے ہیں۔ وہ غنڈوں کی طرح کام کرتے ہیں۔ یہ تاجر کبھی بھی جی ایس ٹی کو ریاستی خزانے میں جمع نہیں کراتے۔ لیکن ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم متعارف کروا کر اس مسئلے سے نمٹا جا سکتا ہے۔ تاہم، اس کے کامیاب نفاذ کے لیے اسے آؤٹ سورس کیا جانا چاہیے، اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ایف بی آر اس سے باہر رہے۔ ایف بی آر کے پاس 15 ہزار سے زائد غیر ضروری ملازمین ہیں اور اس کے افسران کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جس کی وجہ سے نظام مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ اس کے علاوہ زیدی نے انکشاف کیا کہ کالا دھن جائیداد کی فائلوں یا سونے میں لگایا جاتا ہے۔ ہر سال 38 ٹن سونا سمندری راستوں سے پاکستان سمگل کیا جاتا ہے جس میں سے زیادہ تر کالا دھن چھپانے کے لیے خریدا جاتا ہے۔

معاشی اور سیاسی امور پر باقاعدگی سے تبصرہ کرنے والے ڈاکٹر حسنین جاوید نے قوم کی سیاسی قیادت سے امید چھوڑ دی ہے۔ ان کے خیال میں سیاست دانوں، بیوروکریٹس، پراپرٹی ڈیلرز اور تاجروں نے ایک مافیا کی صورت اختیار کر لی ہے۔ پارلیمنٹ اور حکومت دونوں میں بیٹھے لوگ ملک کو درپیش معاشی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے نیت رکھتے ہیں اور نا ہی صلاحیت کے حامل ہیں۔ وہ میرٹ کی بنیاد پر اہل افراد کے داخلے کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں۔ میرٹوکریسی کے پرزور حامی کی حیثیت سے ڈاکٹر جاوید موجودہ نظام سے باہر کی قیادت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ مداخلت کریں اور معیشت کو درست کرنے کے لیے سخت اور غیر روایتی اقدامات کریں۔

اپنے طویل انٹرویو میں ڈاکٹر قیصر بنگالی نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں ہم نے ذاتی مفادات کے حق میں قومی مفاد سے سمجھوتہ کیا ہے۔ انہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ پاکستان کو درپیش بنیادی مسئلہ معاشی نہیں بلکہ مجرمانہ طور پر غلط فیصلے ہیں۔ گذشتہ 40 سالوں میں ہم نے ایک ایسی معیشت تیار کی ہے جہاں لوگ سٹاک مارکیٹ، ریئل سٹیٹ یا درآمدات میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ تمام شعبے غیر پیداواری ہیں اور قومی معیشت کی ترقی میں کوئی خاص کردار ادا نہیں کرتے۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے وائس چانسلر ڈاکٹر ندیم الحق ملک نے معاشی معاملات کی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ اب یہ صرف معاشیات کا سوال نہیں ہے۔ وہ سول سروس کے ڈھانچے اور بیوروکریسی کو پاکستان کے معاشی اور مالیاتی اداروں کی تباہی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ ڈاکٹر حق کا کہنا ہے کہ 'آپ لارڈ میکالے کے سامراجی سول سروس ڈھانچے کو ختم کر دیں، پھر دیکھیں کہ یہ ملک کس طرح ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے'۔

پالیسی معاملات پر فکری اختلافات کے باوجود ان ماہرین اقتصادیات اور مالیاتی ماہرین کے اجتماعی نقطہ نظر سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ پاکستان کی معیشت بغیر کسی سمت یا ٹھوس منصوبے کے چلتی رہی ہے۔ اقتصادی منصوبہ بندی میں پاکستان کی 60 فیصد نوجوان آبادی کی ضروریات کو نظرانداز کیا گیا ہے جو 22 سال سے کم عمر کی ہے۔ تجارتی خسارے کو ختم کرنے کے لیے پاکستان کو اپنی پیداوار کے معیار کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستانی مصنوعات مسابقتی بین الاقوامی مارکیٹ میں داخل ہو کر مقابلہ کر سکیں۔ اس کے لیے دو اہم اقدامات ناگزیر ہیں؛ انسانی وسائل کے معیار اور صلاحیت کو بہتر بنانا اور کاروبار کرنے کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے پاکستان کو دو اہم اقدامات کرنے ہوں گے؛ تعلیمی پالیسی، خاص طور پر اعلیٰ تعلیم کے شعبے پر نظرثانی کرنا اور اسے ازسرنو تشکیل دینا اور بیوروکریٹک رکاوٹوں کو ختم کرنا۔

ان انٹرویوز سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اصل مسئلہ معاشی اور مالیاتی فریم ورک سے کہیں باہر موجود ہے۔ یعنی یہ پراپرٹی ڈیلروں، بڑے تاجروں، زمینداروں، سیاست دانوں اور بیوروکریسی کی بدنیتی اور مجرمانہ رویوں کا معاملہ ہے۔ انہوں نے ملکی معاشی نظام کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ لہٰذا اس مسئلے کو محض فکری و معاشی مشق سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ دوسرے لفظوں میں یہ پاکستان میں معاشیات کا خاتمہ ہے اور محض معاشی اقدامات اس مسئلے کو حل نہیں کر سکتے۔ اس کے بجائے اس مافیا سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے، جیسے مجرموں اور غنڈوں سے نمٹا جاتا ہے۔

مزیدخبریں