اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ظفر مرزا نے کہا کہ 24 گھنٹوں میں نئے کیسز اور اموات کی تعداد تشویش ناک ہے۔ کرونا روکنے کا بنیادی طریقہ سماجی میل جول میں کمی اور فاصلہ رکھنا ہے۔ 50 سال سے زائد عمر کے لوگ اجتماعات میں جانے سے گریز کریں۔ اس کے ساتھ دکانوں اور ریلوے سمیت ٹرانسپورٹ کے لیے ایس اوپیز بنائیں۔
انہوں نے کہا کہ مارکیٹوں اور دکانوں میں لوگوں کاجم غفیر دیکھا جارہا ہے، اس کے نتائج جوبھی ہوں گے اس کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے کیونکہ ہم کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتے۔ ظفر مرزا نے کہا کہ رواں سال عید کے دوران گھر پر نماز پڑھنے سے اچھی بات اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ ہدایات کے تحت مساجد کھلی رہیں گی اور عیدگاہوں پر سماجی فاصلے کے ساتھ نماز ادا کی جا سکے گی۔
انھوں نے لوگوں کو متنبہ کیا ہے کہ اس عید پر گلے نہ ملیں، سماجی فاصلہ رکھتے ہوئے عید مبارک کہیں کیونکہ گلے ملنے سے کرونا وائرس پھیل سکتا ہے۔ ڈاکٹر ظفر مرزا نے لوگوں سے مطالبہ کیا ہے کہ احتیاطی تدابیر پر عمل کر کے وہ اپنی اور اپنے پیاروں کی حفاظت کر سکتے ہیں۔
حیرت اس بات پر ہے کہ ہمارے وزرا اور مشیران کتنے آرام سے کہہ دیتے ہیں کہ وہ کسی اور پر نہیں عوام کو ہی ذمہ دار ٹھہرائیں گے۔ یعنی لاک ڈاؤن کی مخالفت وزیراعظم کرے، صوبے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر لاک ڈاؤن کریں تو وزیراعظم روزانہ کی بنیاد پر اس کے خلاف ٹی وی پر آ کر بیان بازی کرے، ہر تیسرے روز ٹی وی پر آ کر قوم سے خطاب کرے اور ان کو غلط اطلاعات فراہم کرے کہ اس سے تھوڑے سے لوگ مرتے ہیں، بڑی عمر کے لوگ مرتے ہیں، یہ فلو کی طرح ہے، آپ کو ہو بھی جائے گا تو ٹھیک ہو جائیں گے، پریشان نہ ہوں، پیچھے وزرا اور ترجمانوں کی فوجِ ظفر موج اور ایک صوبے کا گورنر کورس میں یہی باتیں دہرائیں، ایک صوبے میں اس پر کچھ بہتر کام کیا جا رہا ہو تو وفاق سے وزرا بھیجے جائیں کہ ان کے خلاف کرپشن کے الزامات لگاؤ، اس صوبے کا گورنر ٹوئٹر پر آ کر اعلان کرے کہ فلو کے اعداد و شمار نکالے جائیں تو اس سے بھی اتنے ہی لوگ متاثرہ نظر آئیں گے، وزیراعظم لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہے کہ سندھ میں لاک ڈاؤن اشرافیہ کا فیصلہ تھا، صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہے کہ panic میں فیصلہ کیا گیا تھا، ملک کی سب سے بڑی عدالت کا سب سے بڑا جج کہے کہ کرونا نظر ہی نہیں آتا، اس پر اتنے پیسے کیوں لگا دیے، کہے کہ اس نے پاکستان میں وبائی صورت ہی اختیار نہیں کی، زبردستی مالز کھلوائے، کوئی اختلاف کرے تو اپنے منصب کا لحاظ نہ کرتے ہوئے کرپشن کے بے بنیاد الزامات لگائے، لوگوں کی نیتوں پر شک کرے، بازاروں کو ہفتہ وار چار دن کی بجائے ساتوں دن کھلوائے اور ببانگِ دہل کہے کہ اس وبا سے زیادہ لوگ ہر سال اسلام آباد میں پولن الرجی سے مر جاتے ہیں، مگر اس ساری disinformation پھیلانے کے بعد وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے صحت فرماتے ہیں کہ ذمہ دار عوام ہوں گے۔
دوسری جانب ڈاکٹر اور صحت کے شعبے میں کام کرنے والے ملازمین روزانہ کے حساب سے کرونا وائرس کا شکار ہو رہے ہیں، کئی لقمہ اجل بن چکے ہیں، اب تو عوامی نمائندے اس کی زد میں آ کر جان کی بازیاں ہار رہے ہیں، اور ہماری حکومت ماسک اور PPE اٹھا کر امریکہ کو دے دیتی ہے، وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق محض اس خواہش کا اظہار کرتی ہیں کہ کاش اس پر لکھا ہوتا کہ پاکستان کے عوام کی جانب سے امریکی بھائیوں کے لئے، تاکہ USAID کا حساب برابر ہو جاتا۔ جہاں انسانی حقوق کو انسانوں اور ڈاکٹرز کے حقوق سے زیادہ یہ فضول سیاسی پوائنٹس سکور کرنے کی فکر ہو، وہاں پر کرونا کے پھیلنے کی ذمہ داری عوام پر عائد ہوگی؟
جی نہیں، ڈاکٹر صاحب! ذمہ دار آپ کی حکومت ہوگی جس نے پہلے دن سے لاک ڈاؤن کو سبوتاژ کیا، عوام کو گمراہ کیا، غریب کے نام پر کاروباری طبقات کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے لاک ڈاؤن کھولا۔ ذمہ دار وہ عدالت ہوگی جس نے اس کارِ شر میں وفاقی حکومت کے فیصلوں سے بڑھ کر کاروباری طبقات کے مفادات کا تحفظ کیا، بلکہ منافقت تک روا رکھنے کی زحمت نہیں کی کہ یہ فیصلہ غریبوں کے لئے کیا جا رہا ہے، بلکہ دھڑلے سے، خم ٹھونک کر کہا کہ کاروبار کے لئے لاک ڈاؤن کھولا جا رہا ہے۔ لہٰذا اگر لوگ مرے تو ذمہ دار وہ عدالت ہوگی جس نے لوگوں کے Right to Life پر Right to Business کو فوقیت دینے کا اصول وضع کیا ہے۔
آپ مذہبی اجتماعات پر پابندیاں نہیں لگا سکے، جب لگائیں تو ان پر عمل نہیں کروا سکے۔ بازاروں پر بندشوں کے خلاف پراپیگنڈا خود ملک کا وزیراعظم کرتا رہا ہے۔ 23 روز میں 38 ہزار کیسز سامنے آ چکے ہیں۔ اب تک 1100 سے زائد اموات ہو چکی ہیں۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے متنبہ کیا ہے کہ لاک ڈاؤن کھلنے کے ایک ماہ بعد اموات کی تعداد میں تیزی آئے گی۔ اگر ایسا ہوا تو اس کے لئے ڈاکٹر ظفر مرزا اپنے باس کو تو ذمہ دار ٹھہرانے سے رہے، کم از کم ذمہ داری عوام پر مت ڈالیں۔