دنیا کی طاقتور ترین خفیہ ایجنسیوں کا سب سے اہم ہتھیار ”ہنی ٹریپ“ کیا ہے؟

دنیا کی طاقتور ترین خفیہ ایجنسیوں کا سب سے اہم ہتھیار ”ہنی ٹریپ“ کیا ہے؟
جنگ میں فتح حاصل کرنے کے لیے اکثر حکومتیں عورتوں کے استعمال کو جائز سمجھتی ہیں۔ ان کیلئے دشمن ملک کے اہم کارندوں سے دفاعی راز اگلوانے کیلئے عورت سے بہتر ہتھیار ہو ہی نہیں سکتا۔ انگریزی میں اسے Honey Trap کہتے ہیں، جس کا مطلب ہے کسی مرد کو اپنی خوبصورتی کے جال میں پھنسا کر اس سے اپنی مرضی کے کام کروانا۔

ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی اتنے مضبوط اعصاب کا مالک ہو جو حسن کے دام میں نہ پھنسے یا اپنے فرائض کی ادائیگی میں اتنا ذمہ دار ہو کہ اس سے کسی طرح کی لغزش نہ ہو یا اتنا نیک ہو کہ ہر طرح کی ترغیبات سے خود کو محفوظ رکھ سکے۔ ہنی ٹریپ کے لیے استعمال ہونے والی عورتیں پہلے دوستی کرتی ہیں، باہمی اعتماد کی فضا قائم کرتی ہیں، پھر تعلقات بڑھا کر مناسب موقع پر ایسا وار کرتی ہیں کہ شکار آواز تک نہیں نکال پاتا۔

غرض جو دوستی خوش گپیوں سے شروع ہوئی تھی، وہ مختلف مراحل طے کر کے خواب گاہ تک پہنچ جاتی ہے۔ نتیجتاً کبھی بلیک میل کا سبب بنتی ہے اور کبھی دشمن ملک کے دفاعی راز کو یہاں سے وہاں منتقل کرنے کے کام آتی ہے۔ حالانکہ حساس مناصب پر کام کرنے والے افسران کو پہلے ہی آگاہ کردیا جاتا ہے کہ نئی جگہ پر نئے لوگوں سے ملنے جلنے میں احتیاط برتیے گا مگر وہ اکثر دھوکا کھا جاتے ہیں۔

1980 کی دہائی میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ایک افسر جوایل ٹی ٹی ای کے معاملات دیکھتے تھے، ایک امریکی ایئر ہوسٹس کے جال میں ایسے پھنسے کہ ان کو بھی پتہ نہ چلا کہ محترمہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی ایجنٹ ہیں اور انہیں استعمال کررہی ہیں۔ جب تک انہیں خبر ہوتی، وہ جیل کی کوٹھری تک پہنچ چکے تھے۔

2004 میں ایک امریکی خاتون دو بھارتی افسروں پال اور داس گیتا سے ملیں، ان سے محبت بڑھائی، پھر ان افسروں کے لیپ ٹاپ ایسے غائب ہوئے کہ آج تک نہیں ملے۔ جبکہ قانوناً حساس اطلاعات آفس سے باہر لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ بہرحال دونوں حضرات جیل کی ہوا کھا رہے ہیں۔

ایسے واقعات کی کمی نہیں، اسرائیل کا ایک نیوکلیئر سائنس دان لندن کے ایک اخبار کے دفتر پہنچا اور اپنے ملک کے دفاعی پروگرام کو فروخت کرنے کی کوشش کی۔ اخبار والے اس کی بات سمجھ نہیں پائے، لیکن اس وقت تک موساد کو اپنے سائنس دان کی مذموم حرکت کی خبر لگ چکی تھی۔ لندن میں اپنے افسر کی گرفتاری موساد کے لیے پریشانی کا باعث تھی، اس لیے ایک خاتون ایجنٹ کو لندن روانہ کیا گیا، جس نے اس سائنس دان پر ڈورے ڈالے، اسے روم میں چھٹیاں گزارنے پر آمادہ کیا اور موصوف جوں ہی روم کی زمین پر اُترے، انہیں گرفتار کرلیا گیا۔

جنگوں کے دوران ایسے واقعات اکثر دیکھنے میں آئے، مثلاً دوسری جنگ عظیم کے بعد جب مشرقی جرمنی کی سیکرٹ سروس کو مغربی جرمنی کی اہم سرکاری معلومات کی ضرورت محسوس ہوئی تو انہوں نے اپنی حکمت عملی ترتیب دیتے ہوئے محسوس کیا کہ جنگ کے بعد مغربی جرمنی کی تنہا عورتیں کثیر تعداد میں کام کرنے لگی ہیں۔ مشرقی جرمنی کے افسروں نے ایک “رومیو نیٹ ورک” قائم کیا جس کے تحت خوبرو نوجوان مغربی جرمنی کے اہم سرکاری اداروں کے باہر گھومتے پھرتے، ان اداروں میں کام کرنے والی عورتوں سے دوستی گانٹھتے اور پھر ان سے سرکاری راز حاصل کرکے اپنے ملک پہنچا دیتے۔

آج بھی ان حسیناؤں کا جادو اپنی ساری حشر سامانیوں کے ساتھ جاری ہے۔