کرونا وائرس سے پہلے دنیا میں تباہی مچانے والی 10 خطرناک ترین وبائیں

01:13 PM, 25 May, 2020

نیا دور
کرونا وائرس نے دنیا بھر میں خوف کی لہر دوڑا دی ہے، لیکن اس کے باوجود تمام تر شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ وائرس پہلا نہیں جس نے دنیا کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ تاریخ میں آنے والی وبائیں اس سے کہیں زیادہ بھیانک تھیں۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ماضی میں کئی بار ایسا ہوا کہ خوفناک وباؤں نے بڑے پیمانے پر انسانی آبادی کو درہم برہم کر کے رکھ دیا۔ یہاں ہم ماضی میں پھیلنے والی دس ہولناک ترین وباؤں کا ذکر کر رہے ہیں جنہوں نے ایک زمانے میں دنیا کے بڑے حصوں کو تہس نہس کر ڈالا تھا۔

10: نیند کی وبا

کل ہلاکتیں: 15 لاکھ

1915 تا 1926 تک رہنے والی اس وبا کا باعث ایک جرثومہ تھا جو دماغ کے اندر جا کر حملہ کرتا ہے۔ اس بیماری کو گردن توڑ بخار کی ایک شکل سمجھا جا سکتا ہے اور اس کے مریض پر شدید غنودگی طاری ہو جاتی ہے۔ مرض کی شدت میں مریض بت کا بت بنا رہ جاتا ہے۔

9: ایشیائی فلو

ہلاکتیں: 20 لاکھ

1957 تا 1958 چین ہی سے ایک فلو اٹھا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر کو لپیٹ میں لے لیا۔ بعض ماہرین کے مطابق اس کا وائرس بطخوں سے انسانوں میں منتقل ہوا تھا۔ اس وبا سے 20 لاکھ کے قریب لوگ مارے گئے، جن میں صرف امریکہ میں 70 ہزار ہلاکتیں شامل ہیں۔

8: ایرانی طاعون

ہلاکتیں: 20 لاکھ سے زیادہ

ویسے تو طاعون کی بیماری وقتاً فوفتاً سر اٹھاتی رہی ہے، لیکن 1772 میں ایران میں ایک ہیبت ناک وبا پھوٹ پڑی۔ اس زمانے میں اس موذی مرض کا کوئی علاج نہیں تھا جس کی وجہ سے اس نے پورے ملک کو لپیٹ میں لے لیا۔

7: کوکولزتلی (2)

ہلاکتیں: 20 لاکھ سے 25 لاکھ

جب ہسپانوی مہم جوؤں نے براعظم امریکہ پر دھاوا بولا تو اس سے انسانی تاریخ کے ایک ہولناک المیے نے جنم لیا۔ مقامی آبادی کے جسموں میں یورپی جراثیم کے خلاف کسی قسم کی مدافعت موجود نہیں تھی، اس لیے ان کی بستیوں کی بستیاں تاراج ہو گئیں۔ ایک سانحہ 1576 تا 1580 میں میکسیکو میں پیش آیا جس میں 20 لاکھ سے 25 لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ اصل بیماری کیا تھی، لیکن مریضوں کو تیز بخار ہوتا تھا، اور بدن کے مختلف حصوں سے خون جاری ہو جاتا تھا۔

6: انتونین کی وبا

ہلاکتیں: 50 لاکھ سے ایک کروڑ تک

یہ دہشت ناک مرض اس وقت پھیلا جب رومی سلطنت اپنے عروج پر تھی۔ 165 عیسوی سے 180 عیسوی تک جاری رہنے والی اس وبا نے یورپ کے بڑے حصے کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ مشہور حکیم جالینوس اسی دور میں گزرا ہے اور اس نے مرض کی تفصیلات بیان کی ہیں، تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ یہ مرض کون سا تھا، اور اس سلسلے میں خسرہ اور چیچک دونوں کا نام لیا جاتا ہے۔

5: کوکولزتلی (1)

ہلاکتیں: 50 لاکھ سے ڈیڑھ کروڑ

یہ وبا بھی میکسیکو میں آئی تھی، لیکن کوکولزتلی 2 سے تقریباً 30 برس پہلے، اور اس کی وجہ بھی وہی تھی یعنی براعظم امریکہ کے مقامی باشندوں میں یورپی جراثیم کے خلاف عدم مدافعت۔ لیکن اس وبا نے دوسری کے مقابلے پر کہیں زیادہ قیامت ڈھائی اور 50 لاکھ سے ڈیڑھ کروڑ لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا۔ یہ اعداد و شمار اس لحاظ سے بےحد لرزہ خیز ہیں کہ اس وقت آبادی آج کے مقابلے پر بہت کم تھی اور تصور کیا جا سکتا ہے کہ اس نے کیسے پورے ملک کو بنجر بنا کر رکھ دیا ہو گا۔

4: جسٹینن طاعون

ہلاکتیں: ڈھائی کروڑ

541 تا 542 میں آنے والی یہ وبا طاعون کی پہلی بڑی مثال ہے۔ اس وبا نے دو سال کے اندر اندر بازنطینی سلطنت اور اس سے ملحقہ ساسانی سلطنتوں کو سیلاب کی طرح لپیٹ میں لے لیا۔ اس وبا کا اثر اس قدر شدید تھا کہ ماہرین کے مطابق اس نے تاریخ کا دھارا ہی بدل کر رکھ دیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس وبا نے ان سلطنتوں کو اتنا کمزور کر دیا تھا کہ چند عشروں بعد عرب بڑی آسانی سے دونوں کو الٹنے میں کامیاب ہو گئے۔

3: ایڈز/ایچ آئی وی

ہلاکتیں: تین کروڑ

ایڈز نئی بیماری ہے جس کا وائرس مغربی افریقہ میں چمپینزیوں سے انسان میں منتقل ہوا اور پھر وہاں سے بقیہ دنیا میں پھیل گیا۔ اس بیماری نے سب سے زیادہ افریقہ کو متاثر کیا ہے اور حالیہ برسوں میں دنیا بھر میں ہونے والے 60 فیصد سے زیادہ مریضوں کا تعلق زیرِ صحارا افریقہ سے ہے۔

2: ہسپانوی فلو

ہلاکتیں: 5 کروڑ

یہ وبا اس وقت پھیلی جب دنیا ابھی ابھی پہلی عالمی جنگ کی تباہی کے ملبے تلے دبی ہوئی تھی یعنی 1918 تا 1920۔ اس وقت دنیا کی آبادی پونے دو ارب کے قریب تھی، جب کہ ہسپانوی فلو نے تقریباً ہر چوتھے شخص کو متاثر کیا۔ اس وقت جنگ کی صورتِ حال کی وجہ سے یورپ کے بیشتر حصوں میں اس فلو سے ہونے والی ہلاکتوں کو چھپایا گیا، جب کہ سپین چونکہ جنگ میں شامل نہیں تھا اور وہاں سے بڑی ہلاکتوں کی خبریں آنے کے بعد یہ تاثر ملا جیسے اس بیماری نے خاص طور پر سپین کو ہدف بنایا ہے۔ عام طور پر فلو بچوں اور بوڑھوں کے لیے زیادہ مہلک ثابت ہوتا ہے، لیکن ہسپانوی فلو نے جوانوں کو خاص طور پر ہلاک کیا۔

1: سیاہ موت

ہلاکتیں: ساڑھے سات کروڑ تا 20 کروڑ

انسانی تاریخ کبھی اتنے بڑے سانحے سے دوچار نہیں ہوئی۔ 1347 سے 1351 تک طاعون کی اس وبا نے دنیا کو اس قدر متاثر کیا کہ کہا جاتا ہے کہ اگر یہ وبا نہ آئی ہوتی تو آج دنیا کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔ ماہرین کے مطابق طاعون کا جرثومہ مشرقی ایشیا سے ہوتا ہوا تجارتی راستوں کے ذریعے مشرقِ وسطیٰ اور پھر یورپ جا پہنچا جہاں وہ 30 فیصد سے 60 فیصد آبادی کو موت کے منہ میں لے گیا۔ تباہی اس قدر بھیانک تھی کہ پورے شہر میں مُردوں کو دفنانے والا کوئی نہیں بچا۔ اس وبا کے اثرات کی وجہ سے تاریخ میں پہلی بار دنیا کی مجموعی آبادی کم ہو گئی اور دوبارہ آبادی کی اس سطح تک پہنچنے کے لیے دنیا کو دو سو سال لگ گئے۔
مزیدخبریں