تفصیلات کے مطابق دنیا نیوز کے پروگرام ’آن دی فرنٹ‘ میں میزبان کامران شاہد نے سوال کیا کہ عثمان بزدار صاحب کی کارکردگی پر تمام لوگ سوال اٹھا رہے ہیں، عوام اور اداروں کی بھی یہی رائے ہے جبکہ آپ ہی کی پارٹی کے 32 ایم پی ایز کی بھی یہی رائے ہے تو اس کے جواب میں فیصل واوڈا نے کہا کہ یہ فیصلہ وزیراعظم کو کرنا ہے کہ کسے کیا کرنا چاہیئے کیا نہیں۔
فیصل واوڈا نے کہا کہ میں آپ کو یہ بات ایک مثال سے سمجھاتا ہوں کہ فوج کو چلانے کے لئے فوج کی صلاحیت ہونا ضروری ہے اس صلاحیت کو آرمی چیف بہتر جان سکتا ہے، میں یا کوئی اور نہیں سمجھ سکتا۔ مثال کے طور پر اگر میں آرمی چیف کو کہتا ہوں کہ کور کمانڈرز میں 5 افسران ایسے ہیں جن کی کارکردگی تسلی بخش نہیں تو اس کے جواب میں آرمی چیف یہی کہے گا کہ میں فوجی ہوں ، میں نے 40 سال اس ادارے کو دئیے ہیں میں بہتر سمجھتا ہوں کہ کس کی کارکردگی بہتر ہے کس کی نہیں ، وہ کیا اچھا کر رہے ہیں کیا برا کر رہے ہیں میں جانتا ہوں۔ لہذا اسی طرح ہم سب اپنی رائے کو رائے رکھیں اور ایک دوسرے کے کام میں مداخلت نہ کریں تو یہ ملک بہت اچھی طرح چل سکتا تھا اور چلتا رہے گا۔ نہ میں کسی کے کام میں مداخلت کروں اور نہ کوئی میرے کام میں مداخلت کرے۔
اسی طرح اگر آج آپ یا کوئی اور کہتا ہے کہ عثمان بزدار درست کام نہیں کر رہے تو یہ آپ کی سوچ ہو سکتی ہے، مشورہ ہو سکتا ہے مگر فیصلہ نہیں ہو سکتا کیونکہ فیصلہ صرف وزیراعظم کا تھا، وزیراعظم کا ہے اور وزیراعظم کا رہے گا۔ عثمان بزدار وزیراعلی تھا، ہے اور جب تک وزیراعظم چاہیں گے وہ وزیراعلیٰ رہے گا۔
اس بات پر کامران شاہد نے مسلم لیگ ن کے رہنما مفتاح اسماعیل سے مخاطب ہو کر کہا کہ وہ فیصل واوڈا آپ کے بیانیئے پر ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ یا اداروں کا سیاست میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیئے۔
اس بات پر مسکراتے ہوئے مفتاح اسماعیل نے جواب دیا کہ فیصل بھائی نے تو ایک پیج کو آگ لگا دی ہے ان کی باتوں میں انہوں نے صاف کہہ دیا کہ وہ کون ہوتے ہیں مشورہ دینے والے، وہ وزیراعظم تھا ہے اور وہ وزیراعلیٰ تھا ہے اور رہے گا پتہ نہیں کیا بول رہے ہیں۔ میرے خیال میں تو فیصل واوڈا نے تو ایک پیج پر تو بم پھاڑ دیا ہے۔ یہ تو ہم خیال ہی نہیں رہے یہ تو ہم خیال سے بھی آگے نکل چکے ہیں ہیں۔
https://twitter.com/VOP_URDU/status/1396870695552966659