الیکشن کمیشن آف پاکستان، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے دائر نظرِثانی درخواستوں پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔یہ وہی بنچ ہے جس نے 4 اپریل کو فیصلہ سنایا تھا۔
سماعت کے آغاز پر وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تیسرا دن ہے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل سن رہے ہیں۔الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل مختصر ہوں۔ بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر کافی وقت ضائع ہوا۔ ہمیں بتائیے کہ آپ کا اصل نقطہ کیا ہے۔
سجیل سواتی نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز آئینی اختیارات کو کم نہیں کرسکتے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ رولز عدالتی آئینی اختیارات کو کیسے کم کرتے ہیں۔ اب تک کے نقطہ نوٹ کر چکے ہیں، آپ آگے بڑھیں۔
سجیل سواتی نے کہا کہ فل کورٹ کئی مقدمات میں قرار دے چکی ہے کہ نظرثانی کا دائرہ کار محدود نہیں ہوتا۔ اس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آپ کی منطق مان لیں تو سپریم کورٹ رولز عملی طور پر کالعدم ہو جائیں گے۔
سجیل سواتی نے کہا کہ بعض اوقات ملاقات میں پارلیمنٹ کی قانون سازی کا اختیار بھی محدود ہے۔ توہین عدالت کے کیس میں لارجر بینچ نے قرار دیا کہ سپریم کورٹ کا اختیار کم نہیں کیا جاسکتا۔ نظرثانی درخواست دراصل مرکزی کیس کا ہی تسلسل ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ ہوا میں تیر چلاتے رہیں گے تو ہم آسمان کی طرف ہی دیکھتے رہیں گے۔ کم ازکم ٹارگٹ کر کے فائر کریں پتا تو چلے کہنا کیا چاہتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آپ نے نظرثانی کا دائرہ کار مرکزی کیس سے بھی زیادہ بڑا کردیا ہے۔ سجیل سواتی نے کہا کہ انتخابات کے لیے نگران حکومت کا ہونا ضروری ہے۔ نگران حکومت کی تعیناتی کا طریقہ کار آئین میں دیا گیا ہے۔ نگران حکمرانوں کے اہلخانہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے۔ آئین میں انتخابات کی شفافیت کے پیش نظر یہ پابندی لگائی گئی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اگر صوبائی اسمبلی 6 ماہ میں تحلیل ہو جائے تو کیا ساڑھے 4 سال نگران حکومت ہی رہے گی۔ ساڑھے 4 برس قومی اسمبلی کی تحلیل کا انتظار کیا جائے گا؟
سجیل سواتی نے کہا کہ ساڑھے 4 برس نگران حکومت ہی متعلقہ صوبے میں کام کرے گی۔ آئین کے ایک آرٹیکل پر عمل کرتے ہوئے دوسرے کی خلاف ورزی نہیں ہو سکتی۔ آرٹیکل 254 سے 90 دن کی تاخیر کو قانونی سہارا مل سکتا ہے۔ انتخابات میں 90 دن کی تاخیر کا مداوا ممکن ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مداوا ایسے بھی ہو سکتا ہے کہ ساڑھے 4 سال کے لیے نئی منتخب حکومت آسکتی ہے۔ آئین میں کیسے ممکن ہے کہ منتخب حکومت 6 ماہ اور نگران حکومت ساڑھے 4 برس رہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ 90 دن کا وقت بھی آئین میں دیا گیا ہے۔ نگران حکومت 90 دن میں الیکشن کروانے ہی آتی ہے۔ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ نگران حکومت کا دورانیہ بڑھایا جاسکتا ہے۔نگران حکومت کی مدت میں توسیع آئین کی روح کے منافی ہیں۔ الیکشن کمیشن فنڈز اور سیکیورٹی کی عدم فراہمی کا بہانہ نہیں کرسکتا۔کیا الیکشن کمیشن بااختیار نہیں ہے؟
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ بتائیں 90 دن کی نگران حکومت ساڑھے 4 سال کیسے رہ سکتی ہے۔ آئین پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنا ہوتا ہے۔
جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ عدالت کی آبزرویشن سے متفق ہوں۔آئین کی منشا منتحب حکومتیں اور جمہوریت ہی ہے۔ملک کو منتخب حکومت ہی چلا سکتی ہے۔ جمہوریت کو بریک نہیں لگائی جاسکتی۔ 1973ء آئین بنا تو نگران حکومتوں کا تصور نہیں تھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین بنا تو مضبوط الیکشن کمیشن تشکیل دیا گیا تھا، نگراں حکومتیں صرف الیکشن کمیشن کی سہولت کیلئے شامل کی گئیں۔ شفاف انتحابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ کیا الیکشن کمیشن کہہ سکتا ہے کہ منتحب حکومت کے ہوتے ہوئے الیکشن نہیں ہوں گے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن شفاف انتخابات سے معذوری ظاہر نہیں کر سکتا۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن تو کہتا تھا فنڈز اور سیکیورٹی دیں تو انتحابات کروا دیں گے۔ آئین کے حصول کی بات کر کہ خود اس سے بھاگ رہے ہیں۔
سجیل سواتی نے کہا کہ الیکشن کمیشن مکمل بااختیار ہے، کارروائی کرسکتا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کو اختیارات استعمال کرتے ہوئے دیکھا ہی نہیں۔ فوج نے الیکشن کمیشن کو کیو آر ایف کی پیشکش کی تھی۔ میرے خیال سے کیو آر ایف نفری کافی ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ وہ سیکیورٹی مسائل اور فنڈنگ کی کمی کی وجہ سے انتخابات کرانے سے قاصر ہے۔
وکیل نے مزید کہا کہ 9 مئی کے واقعات سے الیکشن کمیشن کے خدشات درست ثابت ہوئے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالت نے خدشات کی نہیں آئین کے اصولوں کی بات کرنی ہے۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ آئین کی منشا ہے کہ حکومت منتخب ہی ہونی چاہیے۔ بظاہر 8 اکتوبر کی تاریخ صرف قومی اسمبلی کی وجہ سے دی گئی تھی۔ حکومت جو کہتی ہے الیکشن کمیشن خاموشی سے مان لیتا ہے۔
سجیل سواتی نے کہا کہ سرکاری اداروں کی رپورٹ پر شک کرنے کی وجہ نہیں ہے۔ دہشت گردی کے خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے 8 اکتوبر کی تاریخ دی تھی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کس بنیاد پر کہہ رہے کہ 8 اکتوبر تک سیکیورٹی حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ یہ مؤقف 22 مارچ کو تھا۔ الیکشن کمیشن آج کیا سوچتا ہے انتخابات کب ہوں گے۔
سجیل سواتی نے جواب دیا کہ ہدایت لے کر آگاہ کر سکتا ہوں، 9 مئی کے واقعات کے بعد حالات کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 9 مئی کو غیر معمولی واقعات ہوئے۔ 9 مئی کے واقعات کا کچھ کرنا چاہیے۔ 9 مئی کا واقعہ انتخابات کے لیے کیسے مسائل پیدا کر رہا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ 9 مئی کے واقعے کے چکر میں آپ آئین کی منشا کو بھلا رہے ہیں۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 29 مئی تک ملتوی کردی۔