'اسلام آباد ہائی کورٹ آرمڈ فورسز کے کسی افسر کو طلب نہیں کر سکتی'

ہمارے ملک میں عدلیہ ہمیشہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی سیکنڈ ان کمانڈ رہی ہے۔ اس وقت عدلیہ اور فوج کے مابین جو تصادم کی فضا ہے اس سے متعلق کہا جا رہا ہے کہ فوج کے اندر بھی پھڈا ہے جبکہ فوج کے اندر کوئی تلاطم نہیں ہے، فوج بہت پرسکون ہے۔

12:31 PM, 25 May, 2024

نیوز ڈیسک
Read more!

اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز ہوں یا لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحب، یہ غصے میں نظر آتے ہیں جبکہ ججز کو ضبط رکھنا ہوتا ہے۔ عمران خان بھی آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈرز پر الزام لگاتے رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اب وکلا کے ذریعے وہی کمپین عدلیہ میں چلائی جا رہی ہے۔ آئین کا آرٹیکل 199 (3) بیان کرتا ہے کہ کوئی ہائی کورٹ آرمڈ فورسز کے کسی افسر کو طلب نہیں کر سکتی۔ یہ کہنا ہے سینئر صحافی اعجاز احمد کا۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبرسےآگے' میں سینئر وکیل جہانگیر جدون خان نے کہا فوج کو تسلیم کرنا ہو گا کہ انہوں نے ماضی میں کئی بار اپنے اختیارات سے تجاوز کیا اور آئین کو توڑ کر کبھی مارشل لاء لگایا تو کبھی ہائبرڈ رجیم قائم کی۔ اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ آئین اور قانون کے مطابق اگر کوئی شخص ریاست مخالف سرگرمی میں ملوث ہے اور ایجنسیاں اسے پکڑتی ہیں یا پولیس کی مدد کرتی ہیں تو اسے عدالت میں پیش کریں اور ثبوت دیں۔ فوج کو بھی عدالتوں پر اعتماد کرنا ہو گا۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

رضا رومی کے مطابق ہمارے ملک میں عدلیہ ہمیشہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی سیکنڈ ان کمانڈ رہی ہے۔ عدلیہ بحالی تحریک بھی سراب ثابت ہوئی کیونکہ اس کی ڈوریاں بھی جنرل کیانی ہلا رہے تھے۔ اس وقت عدلیہ اور فوج کے مابین جو تصادم کی فضا ہے اس سے متعلق کہا جا رہا ہے کہ فوج کے اندر بھی پھڈا ہے جبکہ میرے ذرائع کے مطابق فوج کے اندر کوئی تلاطم نہیں ہے، فوج بہت پرسکون ہے۔

پروگرام 'خبرسےآگے' ہر پیر سے ہفتے کی شب 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے پیش کیا جاتا ہے۔

مزیدخبریں