فسطائیت کی 9 علامات

09:09 PM, 25 Nov, 2018

عدنان حفیظ
فاشزم، یعنی فسطائیت، آمریت پسندی اور شدید وطن پرستی کی ایک شکل ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد تعصب، کٹر پن، شدت پسندی اور نفرت انگریزی کے خمیر سے کشید کی گئی یہ تحریک، یورپ میں بنیٹو مسولینی اور اڈولف ہٹلر جیسے فسطائی عفریتوں کے زیر سایہ پروان چڑھی۔ تاریخی تناظر میں لیے گئے پاکستان کے حالات حاضرہ کے اس جائزے کا مقصد وزیراعظم عمران خان کی خود پرست شخصیت اور اس کے زیرِ اثر پروان چڑھنے والی فسطائیت کا احاطہ کرنا ہے۔

شدید وطن پرستی

اربن یعنی شہری تنخوادار مڈل اور اپر مڈل کلاس کی محرومیوں اور عدم تحفظ کے احساسات پر پھلتا پھولتا یہ فتنہ شدید وطن پرستی اور قومیت کے جذبات ابھارتا ہے۔ ان محرومیوں سے نجات کیلئے فسطائی لیڈر اپنے پیروکاروں کو پرچم کے زیرِ سایہ جمع کرتا ہے۔ ہر طرف لہراتے پرچم، گونجتے ہوئے ملی نغمے، تبدیلی کے نعروں اور عظمت رفتہ سے جڑے، تابناک مستقبل کے خواب۔ یہ سب علامات حب الوطنی کی آڑ میں فسطائیت کے انسانیت سوز نظریات کے پرچار کا پتہ دیتی ہیں۔

تشدد کی ستائش اور تلقین

جرمنی اور اٹلی میں ہٹلر اور مسولینی جیسے لیڈروں کے نظریات کے مطابق تشدد معاشرے کی اصلاح کیلئے ناگزیر ہے۔ فسطائی قیادت کی خود پسند نفسیات کا یہ مشترکہ پہلو ہے کہ سیاسی مخالفوں کو غلیظ، بدعنوان اور ناسور قرار دیکر معاشرے کو ان کے آلودہ وجود سے پاک کرنے کیلئے اپنے پیرو کاروں کو ان پر حملوں کی تلقین کی جائے۔ سرکاری املاک پر حملے، آگ لگانے کی دھمکیاں، قوانین توڑنے کی حوصلہ افزائی اور سول نافرمانی جیسے ہتھکنڈوں سے معاشرے میں وسیع پیمانے پر انارکی اور انتشار پھیلا کر حکومت وقت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جائے یا پھر اس کا تختہ الٹ کے اقتدار پر قبضہ کیا جائے۔ یورپ میں یہودیوں، لبرل، سوشلسٹ، دانشوروں، صحافیوں اور غیر سفید فام لوگوں کے خلاف یہ تشدد بالکل ویسے ہی پروان چڑھا جیسے ہمارے آج کے وزیراعظم ہر سیاسی مخالف کو معاشرے کا ناسور کہہ کر اس کو اپنے ہاتھوں سے ختم کرنے کی دھمکیاں دیتے رہے ہیں۔




اس مضمون کو مصنف کی اپنی آواز میں بھی سنا جا سکتا ہے:


https://www.youtube.com/embed/elGQbg-YUr4




نرگسیت اور شخصیت پرستی

قیادت کی نرگسیت اور اس کے گرد بُنا شخصیت پرستی کا کلٹ، فسطائی جماعتوں کے کلچر میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اپنی ذات کے سحر اور عشق میں مبتلا قیادت اپنی کامیابیوں کا واویلا کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔ میرا پاکستان، میری جدوجہد، میرا عروج و زوال، یعنی کے میں میں میں اور بس میں۔ یارکر ماروں گا، وکٹ اڑ جائے گی، ورلڈ کپ، کینسر ہسپتال ہر ذاتی کامیابی کو قوم کے نجات دہندہ ہونے کی دلیل بنا کر پیش کرنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہٹلر اور مسولینی اپنی عسکری تربیت، جنگی خدمات اور فوجی نظم و ضبط کو قوم کیلئے امنگ قرار دیتے تھے۔ ایسے کلٹ کے زیرِ اثر پیروکار اپنی قیادت کو مُبرا عن الخطا سمجھتے ہوئے خدائی اوتار قرار دیکر اسکی ہر حماقت کے دفاع میں لڑنے مرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔

نوجوان نسل کی برین واشنگ

اپنے عزائم کے حصول کیلئے فسطائی قیادت نوجوان نسل کی معصومانہ جذباتیت کو تشدد کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ تاریخی حقائق میں افسانوی کہانیوں کی آمیزش کر کے حال کی بدحالی کا الزام سیاسی مخالفوں کے کھاتے ڈالا جاتا ہے۔ ادھیڑ عمر قیادت اپنی مردانگی، وجاہت اور شجاعت کے قصے سنا کر نوجوان نسل کو آنے والے آئیڈیلسٹ یوٹوپیا کی نوید سناتی ہے۔ اور نونہالانِ انقلاب کو مستقبل کے پاسباں ثابت کر کے غدر اور طوفان بد تمیزی برپا کرنے پر آمادہ کیا جاتا ہے۔ اس لئے یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ نازی جرمنی میں ہٹلرز لیگ آف جرمن یوتھ اور نیا پاکستان میں "انصافی" نامی نونہالانِ انقلاب ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ کیا آپ نے تحریکِ انصاف کے جلسوں اور سوشل میڈیا پر پھیلے طوفانِ بدتمیزی کو دیکھا ہے؟ کیا آپ نے کبھی عمران خان کی تصویر، قرآنی آیات اور حب الوطنی کا پرچار کرتی پروفائل والے سے گالیاں کھائی ہیں؟ کیا کبھی آپ نے منطق اور دلیل کے بدلے غداری اور بدعنوان ہونے کے طعنے سنے ہیں؟ اگر یہ سب ہوا ہے تو سمجھ جائیے یہ وزیراعظم صاحب کی پھیلائی ہوئی فسطائیت کا ہی پھل ہے۔

ماضی کا سنہرہ دور

ہٹلر کی ساری سیاست سلطنت روم کی عظمت کو پانے کی جستجو کا نام تھا۔ اپنی آمریت کو دوام بخشنے کیلئے اس نے نازی ریاست کو 3rd Reich کا نام دیا۔ وزیراعظم عمران خان اکثر 60 کی دہائی کے پاکستان کی عظمت بیان کرتے پائے جاتے ہیں۔ ایوبی آمریت سے متاثر رہبر، نونہالانِ انقلاب کو اکثر سویڈن کے ماہرِ معاشیات گنار میوڈال کی ایک کتاب The Asian Miracle کا حوالہ دیتے ہیں، جس میں 60 کی دہائی کے پاکستان کا تقابل کیلیفورنیا کی ترقی سے کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا کوئی تقابلی جائزہ اور نہ ہی ایسی کوئی کتاب اپنا کا وجود رکھتے ہیں۔ ہاں لیکن میوڈال نے اپنی Asian Drama نامی کتاب میں 60 کی دہائی کی ایوبی آمریت کی معاشی پالیسی پر ایک تنقیدی باب ضرور لکھا تھا۔ کبھی ایوبی آمریت کے گن گانا، کبھی جوزف سٹالن جیسے مطلق العنان کے اقوال ٹویٹ کرنا، کبھی حمید گل کی شاگردی، کبھی مشرف کا دست راست۔ ذرا سوچیے، ریاستِ مدینہ کے نام پر رچایا ہوا نیا پاکستان نامی سوانگ کہیں ہٹلر کے 3rd Reich کا ہی تو چربہ نہیں؟

کرپشن اور اقربا پروری پر دوہرے معیار

یورپ میں فسطائیت کا فتنہ معاشرے میں پھیلی برائیوں اور مالی بد عنوانیوں کو یہودیوں کے سر منڈھ کر پروان چڑھا۔ یہودیوں کو لالچی، بدعنوان، حریص اور جنگ عظیم اول میں شکست کا ذمہ دار قرار دیکر ہٹلر اور مسولینی نے اپنے پیروکاروں سے کرپشن اور اقربا پروری سے معاشرے کو پاک کرنے کا وعدہ کیا۔ لیکن اس وعدے کی آڑ میں ریاست کے سارے بے ایمان، چور اور ڈاکو حکومت میں لا بٹھائے اور اقربا پروری کو نیا دوام بخشا۔ اب ذرا 20 سال سے عمران خان کا طرزِ سیاست اور بیانیہ دیکھیے۔ موصوف کے پاس ملک کے مسائل کا کوئی حقیقی حل نہیں۔ لیکن اشرفیہ کی کرپشن اور جاگیردارانہ نظام کو ملک کیلئے ضرور ناسور قرار دیتے رہے۔ لیکن جیسے ہی اقتدار کے دیوتا مہربان ہوئے، پاکستان کے کرپٹ ترین لوٹے بھرتی کر کے انتخاب لڑا اور اقتدار میں آ کر دوستوں یاروں پر نوازشات کی بارش کر دی۔ سب سے پہلے اپنی ہمشیرہ کے کالے دھن کی دھلائی کیلئے این آر او دیا۔

مذہب بطور ہتھیار

فسطائی حکومت اور گروہ سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے مذہب کو ہتھیار بنا کر اس کا بے دریغ اور پر تشدد استعمال کرتے ہیں۔ یورپ میں یہودیوں کی ہولوکاسٹ کو جواز فراہم کرنے واسطے، یہود مُخالِف قدامت پسند عیسائیت کی تعلیمات کا استعمال کیا گیا۔ کیا آپ کو وزیراعظم عمران خان صاحب کا نومبر 2017 میں ختمِ نبوتؐ کے مسئلے پر رویہ یاد ہے؟ کیا آپ کی یادداشت میں ختمِ نبوتؐ کانفرنس سے کیا ہوا خطاب تازہ ہے؟ الکشن 2018 کی مہم کے دوران کی گئی لاتعداد پریس کانفرسوں اور شعلہ بیان تقریروں کی باز گشت ابھی تک ملکی سیاسی فضا میں تازہ ہیں جناب۔ سوشل میڈیا پر نونہالانِ انقلاب کے توہینِ رسالتؐ کے فتوے، مسلم لیگ نون کو مغربی لابی کی اسلام مخالف سازش کا گماشتہ قرار دینا، ممتاز قادری کی پھانسی کا سیاسی استعمال۔ تو کیا یہ سب نشانیاں اس بات کا ثبوت نہیں کہ تحریکِ انصاف اسلام اور حرمتِ رسولؐ جیسے نازک اور مقدس موضوعات کی آڑ میں مذہبی منافرت پھیلا کر اپنے مذموم سیاسی مقصد کے حصول کیلئے کسی حد تک بھی جا سکتی ہے۔

صحافتی آزادیوں اورذرائع ابلاغ پر پابندیاں

آزادی اظہار رائے فسطائی قیادت اور ان کے عزائم کیلئے زہر قاتل کا درجہ رکھتی ہیں۔ ہٹلر نے اقتدار میں آنے کیلئے ذرائع ابلاغ اور صحافیوں کو خوب استعمال کیا۔ لیکن اقتدار ملتے ہی فرض شناس صحافیوں کو ملک دشمن اور غدار قرار دیتے ہوئے عقوبت خانوں میں پھینکا، فوجی عدالتوں سے پھانسیاں دلوائیں اور ذرائع ابلاغ کو مکمل اپنی آمریت کے زیرِ تسلط کر لیا۔ ہٹلر کے پروپیگنڈا وزیر جوزف گوئبلز نے کہا تھا کہ جھوٹ اتنا بولو کہ سچ جھوٹ لگنے لگے اور جھوٹ سچ۔ آج ٹیلی وژن سکرینوں پر بیٹھے تحریک انصاف کے گوئبلز کو دیکھیے جو جھوٹ اور سچ کی آمیزش سے اپنی قیادت کے کردار کے ہر تضاد کو حد درجہ نامعقول وضاحتیں دیکر اسکا دفاع کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر صحافیوں کے "ناقابلِ اشاعت" مضامین پڑھ لیجئے۔ نوکریوں سے ہاتھ دھوتے ٹی وی اینکرز کی خبریں سن لیجئے۔ اگر پھر بھی یقین نہ آئے تو وزیراعظم صاحب پر تنقید کرنے والے کسی صحافی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر، نونہالانِ انقلاب کے ہاتھوں اسکی "درگت" ملاحضہ فرما لیجئے۔

دھاندھی شدہ انتخابات اور اداروں کی سیاست

آج کے پاکستان میں یہ دونوں نشانیاں جتنی اہم ہیں، اتنا ہی ان کو موضوعِ بحث بنانا مشکل۔ فسطائی قیادت کی عسکریت پسندانہ شخصیت، ان کو ریاست کے فوجی اداروں کی ستائش اور قربانیوں کی ملکیت لینے پر اکساتی ہے۔ فوج کے شہیدوں کی قربانی کے ٹھیکیدار بن کر سیاسی مخالفوں کی حب الوطنی پر سوال اٹھانا ہر فسطائی عفریت کا وطیرہ رہا ہے۔ ہٹلر سے لیکر ڈونالڈ ٹرمپ کو دیکھ لیجئے اور انکے پیروکاروں کے رویوں کا بغور جائزہ لیتے ہوئے آپ ان سے عمران خان اور تحریکِ انصاف کی سیاست کا تقابلی جائزہ کیجئے۔ امپائر کی انگلی، شکریہ راحیل شریف جیسے نعرے اور بیانات کیا کھلم کھلا فوج کے مقدس پیشے کو سیاست کے میدانِ خارزار میں گھسیٹنے کی کوشش نہیں؟

ڈاکٹر لارنس برٹ اپنے 2003 کے مضمون بعنوان "Fascism Anyone?" میں لکھتے ہیں، کہ فسطائی قیادتیں اکثر وسیع پیمانے پر دھاندلی شدہ انتخابات کے نتیجے میں اقتدار حاصل کرتی ہیں۔ اور یہ ہے فسطائیت کی دسویں نشانی۔ برٹ کہتا ہے کہ اس دھاندلی کیلئے فسطائی جماعت "مقتدر اداروں" میں بیٹھے اپنے پیروکاروں یا ہمدرودں کے ذریعے سیاسی مخالفوں پر گھیرا تنگ کرتی ہے۔ اس حکمتِ عملی کے تحت اقتدار میں آنے والی بڑی رکاوٹ جیسے متبادل قیادت کو عدلیہ کے ذریعے راستے سے ہٹانا اہم جزو سمجھا جاتا ہے۔ تو یہ ہے تجزیے کا وہ مقام جہاں سے آگے لب کشائی کرتے ہوئے میرے آسٹریلیا میں بیٹھ کر بھی پر جلتے ہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم صاحب، منگو جیسے کوئی بے ضرر بھولے کردار ہیں تو یہ آپ کی بھول ہے۔ عمران خان ایک فسطائی عفریت کا نام ہے جو اپنے ہوس اقتدار کی خاطر اس ملک کو جلا کے خاکستر کر دے، چاہے اسکے بعد مسندِ اقتدار راکھ کے ڈھیر پر ہی کیوں نہ سجانی پڑے۔ نونہالانِ انقلاب سے میری التماس ہے کہ اپنی آنکھیں کھولیں اور اگر نہیں کھول سکتے تو پھر اللّٰہ ہی حافظ ہے۔
مزیدخبریں