وزیراعظم ہاؤس کے مطابق اس مہم کی بدولت حکومت نے پہلے تین ماہ میں 5 کروڑ روپے کی بچت کی ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو دیگر تمام سرکاری اداروں کی بچت کی رقم ملا کر یہ رقم بہت بڑی بنتی ہے اور یہ عوام کیلئے ایک اچھی خوشخبری ہے۔ نئی حکومت کو مختلف باتوں اور مسائل کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ بہت سے لوگ یہ بھی کہیں گے کہ 90 دن کسی بھی حکومت کی کارکردگی کو جانچنے کیلئے بہت کم ہوتے ہیں۔ البتہ حکومت کی کفایت شعاری کی مہم میں ہم نے بہتری دیکھی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے مطابق جب انہوں نے کفایت شعاری کی مہم شروع کی تو اس کا مقصد ان تمام غیر ضروعی اخراجات کو ختم کرنا تھا جو گذشتہ حکومتیں شاہانہ رہن سہن پر خرچ کرتی آئی تھیں۔ یہ قدم اس لئے اٹھایا گیا تاکہ عوام کو یہ یقین ہو سکے کہ عوام کا پیسہ ضائع نہیں کیا جائے گا۔ اور ٹیکس نہ دینے والا طبقہ اس کو دیکھ کر ٹیکس دینے پر آمادہ ہو جائے گا۔
لیکن کیا اس کو نافذ کرنا ممکن ہے؟
اپوزیشن اس مہم کے نافذالعمل ہونے سے متعلق شکوک و شبہات کا شکار تھی۔ پاکستان میں اصل مسئلہ ہمیشہ سے کاغذوں پر بنائی گئی پالیسیوں پر عملدارآمد کروانے کا رہا ہے۔ عمران خان کے الفاظ گو سماعتوں کو بھلے لگے، لیکن ذوالفقار بھٹو کی زمینوں کی اصلاحات کہ مہم بھی سننے میں ایسے ہی بھلی لگی تھی۔ وہ مہم ناکام ہو گئی تھی کیونکہ ذوالفقار بھٹو خود ایک وڈیرہ تھا جس نے اپنی اراضی تو تقسیم نہیں کی لیکن دوسروں سے توقع کرتا تھا کہ وہ اپنی زمینیں تقسیم کریں۔ شکر ہے کہ عمران خان کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔ مثبت بات یہ ہے کہ اس مہم کو دیگر سرکاری اداروں میں نافذالعمل کرنے سے پہلے عمران خان نے اسے سب سے پہلے خود پر نافذ کیا۔ اس ضمن میں عمران خان نے عالیشان وزیراعظم ہاؤس میں قیام کرنے سے گریز کرتے ہوئے وزیر اعظم ہاؤس کی 85 گاڑیوں کی نیلامی کے ساتھ ساتھ 8 عدد بھینسوں کی بھی نیلامی کر دی جو کہ وزیراعظم ہاؤس میں دودھ پلانے کے کام آتی تھیں۔
اصل خبر:
آپ لوگ چاہ رہے ہوں گے کہ میں اصل خبر کی جانب آؤں۔ یقین کیجئے میں شام ادریس نہیں ہوں اور یہ کوئی توجہ یا کلک حاصل کرنے کی خاطر شہ سرخی نہیں ہے۔ یہ سادہ سا حساب کا فارمولا ہے۔ آپ لوگوں نے شاید یہ خبر سنی ہو گی کہ وزیراعظم ہاؤس نے اب تک (90 روز میں) 14 کروڑ 70 لاکھ روپے کی بچت اس کفایت شعاری کی مہم کے زریعے کی ہے۔ اس میں سے 9 کروڑ 70 لاکھ روپے کی رقم کاروں کی نیلامی سے حاصل کی گئی جبکہ بقایا 5 کروڑ روپے کی بچت وزیر اعظم ہاؤس میں قیام نہ کرنے، روزمرہ کے اخراجات میں کمی، اور وزیراعظم ہاؤس میں کام کرنے والے 500 ملازمین (جنہیں دوسرے محکمہ جات میں کھپا دیا گیا) کو فارغ کر کے حاصل کی گئی۔ تین ماہ میں تقریباً 5 کروڑ روپے کی بچت کا مطلب یہ ہے کہ سالانہ 20 کروڑ روپے کی بچت صرف وزیراعظم ہاؤس سے ہی ممکن ہو جائے گی۔ اب اگر اس میں کفایت شعاری مہم کے اقدامات سے بچائے جانے والی دیگر رقم جو کہ صدارتی ہاؤس، 4 گورنر ہاؤسز، 2 چیف منسٹر ہاؤسز ، وفاقی وزرا، پنجاب، خیبرپختونخوا، اور بلوچستان کے صوبائی وزرا کے محکمہ جات اور دیگر سرکاری ادارواں اور حکومت کے ذاتی کاموں کی تشہیر کی اشتہاروں کی پالیسی کو روکنے کے اقدامات بھی شامل کیے جائیں تو اندازاً 5 سے 9 ارب روپے کی بچت سالانہ ممکن ہو سکتی ہے جو کہ سابقہ حکومتوں کے شاہانہ خرچوں کی بدولت ضائع ہو جاتی تھی۔ گو وطن عزیز کے بہت سے قابل عزت اپوزیشن رہنما اس کفایت شعاری کی مہم کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتے ہیں اور اسے عوام کی توجہ حاصل کرنے کیلئے ایک سستا نمائشی حربہ قرار دیتے ہیں، پھر بھی میرا خیال ہے کہ عوام میں کوئی بھی سیاسی وابستگیوں کے باوجود ایسے نمائشی حربے پر اعتراض نہیں کرے گا جس کی بدولت عوام کے دس ارب روپے کی بچت ممکن ہو سکے۔